پاکستان میں ایک بھی اسپتال نہیں؟
وزیراعظم میاں نواز شریف ہوش میں آگئے ۔ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن کے دل کا آپریشن ہوا ہے اور ہو رہا ہے ۔ ملک بھر میں روزانہ ایسے آپریشن ہو تے ہی رہتے ہیں لیکن اس کی کوئی خبر نہیں بنتی ۔ظاہر ےہ کہ برسراقتدار وزیراعظم کا آپریشن غیر معمولی خبر ہے چنانچہ ہر اخبار کی شہ سرخی بنا ۔ پاکستان کی تاریخ میں بھی نواز شریف پہلے سربراہ حکومت ہیں جنہوں نے اپنا دل کھلوایا ۔ یہ قوم کے لیے خوش خبری ہے کہ اب ان کا حکمران کھلے دل سے معاملات کرے گا ۔ وزیراعظم کے چار بائی پاس ہوئے ہیں جو کامیاب رہے اور اطلاعات کے مطابق وہ تیزی سے صحت یاب ہورہے ہیں ۔ وزیراعظم ہو یا عام آدمی اللہ تعالیٰ ہر بیمار کو صحت دے ۔ تاہم نواز شریف اگر وزیراعظم نہ ہوتے تو ان کی علالت اور جراحی کا ایسا چرچا نہ ہوتا ۔ اس موقع پر یہ بات بھی کئی حلقوں کی طرف سے سامنے آئی ہے کہ کیا پاکستان میں ایک بھی اسپتال نہیں اور نہ ایسے ماہر معالج موجود ہیں جو بائی پاس آپریشن کرسکیں ۔ آخر پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر جو آپریشن ہو رہے ہیں اور کامیاب بھی ہو رہے ہیں ، وہ کیسے ممکن ہو رہے ہیں ۔ اس کی ذمے داری پاکستان کے موجودہ اور سابق حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے کہ انہو ںنے پاکستان میں کئی نہ سہی ، کم از کم ایک ہی اسپتال ایسا بنوادیا ہوتا جہاں وہ خود اپنا علاج اطمینان سے کرواسکتے ۔ اس طرح زرمبادلہ بھی بچتا حکمران طبقے میں سے جسے دیکھو معمولی سے علاج کے لیے باہر دوڑا چلا جاتاہے اور جو ارکان پارلیمان ہیں وہ بیرون ملک علاج کا خرچ بھی عوام سے وصول کرتے ہیں ۔ کچھ دن کے وزیراعظم چودھری شجاعت بھی اپنی ناک کے آپریشن کے لیے بیرون ملک چلے گئے تھے ۔ سابق صدر آصف علی زرداری تو علاج کے بہانے ہی طویل عرصے سے ملک سے باہر ہیں ۔ نہ ٹھیک ہوتے ہیں نہ واپس آتے ہیں ، صدر بننے سے پہلے مقدمات سے بچنے کے لیے جب تک لندن میں رہے علاج کرواتے رہے ۔ البتہ جب قید کی سزا ملی تو ضیاءالدین اسپتال میں بڑی شان سے قیام کیا ۔ اب جو ڈاکٹر عاصم حسین عتاب میں آئے ہیں تو زرداری صاحب کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح ان کا احسان اتارا جائے مگر بس نہیں چل رہا ۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے تو ڈاکٹر عاصم کو بچانے کے لیے اپنے گر آزما لیے ۔ وزیراعظم نواز شریف کے لندن کے ایک نجی اسپتال میں علاج پر خرچ تو یقینا زیادہ آیا ہوگا اور ابھی مزیدے آئے گا لیکن شریف فیملی کے مطابق یہ اخراجات نواز شریف خود اپنی جیب سے ادا کریں گے ۔ یہ اچھی بات ہے لیکن اس نازک مرحلے سے گزرنے کے بعد واپس آکر ضرور سوچنا چاہیے کہ ملک میں کم از کم ایک اسپتال تو ایسا ہو جہاں حکمران اپنا علاج اطمینان سے کراسکیں ۔ شریف خاندان کے بنائے ہوئے اسپتال بھی شاید اس قابل نہیں کہ ان میں شریفوں کا علاج ہوسکے ، البتہ دوسرے لوگ علاج کرواتے ہیں تو کروائیں ۔ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے بے شمار وسائل سے مالا مال ۔ کیا دوسرے ممالک کے لوگ یہ سوچ کر مذاق نہیں اڑاتے ہوں گے کہ ایک ایٹمی ملک کاحکمران ایسا ایک بھی اسپتال نہیں بنا سکا جہاں اس کا علاج ہوسکے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ایسے اسپتال بھی ہیں اور لندن کے ڈاکٹروں سے زیادہ ماہر اور تجربہ کار ڈاکٹر بھی لیکن یہ شاید حکمران طبقے کے لیے باعث توہین ہے کہ وہ ایک ترقی پذیر ملک کے اسپتال میں اپنا علاج کروائے ۔ اس پر حکمرانی کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ وزیراعظم نواز شریف صاحب پوری طرح بحال ہونے کے بعد اس پر کھلے دل سے ضرور غور کریں کہ پاکستان کے کروڑوں عوام کو صحت کی کیا سہولتیں دستیاب ہیں اور وہ بیمار ہوکر کس اذیت سے گزرتے ہیں ۔ نام نہاد سرکاری اسپتالوں میں عام آدمی کے لیے کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے ۔دوائیں بھی اسپتال سے نہیں ملتیں اور باہر سے خریدنی پڑتی ہیں ۔ کوئی اس کا حساب لینے کو تیار نہیں کہ دواﺅں کے نام پر جو بھاری رقمیں سرکاری اسپتالوں کو دی جاتی ہیں وہ کہاں جاتی ہیں ۔ا یک غریب آدمی کے لیے تو بیمار ہونا بھی قیامت ہے ۔ ایک خبر کے مطابق سرکاری اسپتالوں میں کو کھانا مریضوں کے لیے بنتا ہے وہ بھی دوسرے کھا جاتے ہیں اور کچھ لوگ پارسل بندھوا کر لے جاتے ہیں ۔ نمائندے کے مطابق کراچی کے جناح اسپتال میں مریضوں کا کھانا عملہ ہڑپ کر جاتا ہے ، گارڈ اور پولیس اہلکار گھر لے جاتے ہیں ۔ناشتے میں ملنے والی اشیاءبیکریو ں کو پہنچا دی جاتی ہیں کم وبیش ہر سرکاری اسپتال کی یہی صورت حال ہے ۔ اگر وزیراعظم یا وزیراعلیٰ نہ سہی ، وفاقی یا صوبائی وزراءکبھی کبھار نزلہ، زکام کے علاج کے لیے سرکاری اسپتال میں داخل ہو جائیں تو شاید اصلاح ہو جائے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک اور مصیبت نازل ہونے کا خطرہ ہے ۔ ان معزز شخصیات کی حفاظت کے نام پر اسپتال کے دروازے ہی عام مریضوں کے لیے بند ہو جائیں گے ۔ بہر حال، وزیراعظم کو صحت یابی مبارک ہو ۔ اب وہ قوم کی صحت پر بھی توجہ دیں اور امورمملکت کو بھی بیماریوں سے پاک کریں ۔ ان کا بھی آپریشن ہونا ضروری ہے ۔ وزیراعظم آپریشن سے پہلے وڈیو لنک کے ذریعے بجٹ تجاویز کی منظوری دے چکے ہیں ۔ اور کامیاب آپریشن کے بعد اب وہ انتہائی احتیاط کے یونٹ ، آئی سی یو میں منتقل ہو گئے ہیں ۔ وزیراعظم صاحب ، اس وقت پورا ملک آئی سی یو میں پڑا ہوا ہے ۔ بدعنوانی کا ناسور قابو سے باہر ہو رہا ہے ۔ اس ناسور کا آپریشن بہت ضروری ہے ۔ اور اب یہ کام کھلے دل سے ہوسکتا ہے ۔ لندن کے اسپتالوں کے اندر تصویر کشی ممنوع ہے ۔ لیکن جس نجی اسپتال میں وزیراعظم ہیں ۔ شاید وہاں پل پل کی تصویر کشی کی اجازت ہے ۔ چنانچہ قوم کو ہر مرحلے سے باخبر رکھا گیا ہے ۔