Tayyab Mumtaz

کس سے منصفی چاہئیں !!!

24 سالہ زینت فری لانس رپورٹر پاکستان کی پہلی خاتون صحافی ہیں جن کے بارے میں گمان کیا جا رہا ہے کہ انہیں ” زبردستی لاپتہ “ کیا گیا ہے۔ زینت شہزادی ایک خبر پر زبردست کام کر رہی تھیں اور وہ بھارتی شہری حامد انصاری کی پاکستان میں نومبر 2012 کو گمشدگی کے اسرار و رموز کو بے نقاب کر رہی تھیں۔ جب وہ منظر سے غائب ہو گئیں۔ بی بی سی کی صبا اعتزاز نے اپنی تحقیق میں پتہ چلایا کہ ان کے اہل خانہ اور پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کےلئے سرگرم کارکنوں کا خیال ہے کہ انہیں سکیورٹی اداروں نے اغواءکیا جن پر پہلے بھی الزامات آتے رہے ہیں کہ انہوں نے انسداد دہشتگردی آپریشن میں پہلے بھی کئی لوگوں کو اٹھایا ہے۔ پاکستان کی آئی ایس آئی پر الزام ہے اس نے ماضی میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو نشانہ بنایا ہے ۔2014 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 2008 پاکستان میں جمہوری حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں 34 صحافی مارے گئے۔ جن صحافیوں نے پاکستانی خفیہ ادارے کی کارروائیاں رپورٹ کیں یا لوگوں کو اس کی کارروائیوں پر آواز اٹھانے کےلئے اکسایا انہیں نشانہ بنایا گیا۔ مثال کے طور پر 2014 میں جیو ٹی وی کے صحافی حامد میر کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی ۔گزشتہ برس انسانی حقوق کےلئے کام کرنیوالی سبین محمود کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔ سبین محمود کی تنظیم ” دی سیکنڈ فلور “ آئی ایس آئی کی سرگرمیوں پر پروگرام کرتی رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے انسانی حقوق کے تحفظ کےلئے سرگرم کارکن خرم زکی کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ گمشدگی کی باوجود زینت کے معاملے کو اس قدر توجہ نہیں مل سکی جس کی وہ مستحق تھیں۔ تاہم اس کے باوجود ، کہ وہ پاکستان میں لاپتہ ہونے والی پہلی خاتون صحافی ہیں ، ان کا معاملہ عالمی سطح پر توجہ حاصل کرنے کا حق دار ہے۔ صبا اعتزاز کی تحقیقات کے مطابق زینت نے پاکستانی حکومت کے کمیشن کو مجبور کیا کہ وہ حامد انصاری کی گمشدگی کی تحقیقات کریں۔ ان کی جدوجہد کے نتیجے میں سکیورٹی اداروں نے تسلیم کیا کہ حامد انصاری ان کی تحویل میں ہے۔ بعد میں حامد انصاری کو فوجی عدالت سے قید کی سزا سنا دی گئی۔ اس کے بعد زینت بھی گم ہو گئیں جو انصاری کا معاملہ بے نقاب کرنے کا نتیجہ تھا۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم وکیل حنا جیلانی نے بتایا: ’ان کے گھر والوں سے ہمیں پتہ چلا کہ ایک بار پہلے بھی زینت کو سکیورٹی والے زبردستی اٹھا کر لے گئے تھے اور چار گھنٹے بعد چھوڑ دیا۔ زینت نے گھر والوں کو بتایا کہ وہ اس سے حامد کے بارے میں تفتیش کر رہے تھے۔‘لاہور جیسے شہر میں دن دہاڑے ایک خاتون صحافی کا لاپتہ ہونا انسانی حقوق کے سرگرم اداروں کے لیے باعثِ فکر ہے۔ حنا جیلانی نے کہا ’ہمیں کافی حد تک یقین ہے کہ یہ کام خفیہ ایجنسیوں ہی کا ہے کیونکہ ان کی حراست میں اگر کوئی بھی ہو تو پولیس کا کسی قسم کا بس نہیں چلے گا۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس کیس میں پولیس تقریباً بے بس ہو چکی ہے۔‘حنا جیلانی کا کہنا ہے ’اگر ایسے قوانین بنائیں جائیں گے جو موجودہ قوانین سے متصادم ہوں اور جب ان اداروں پر کوئی احتساب یا نگرانی کا نظام نہ ہو تو یہ بہت خطرناک ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ جبری گمشدگیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔‘ رپورٹرز سینز فرنٹیئرز کی رپورٹ کے مطابق پریس فریڈم کے لحاظ سے پاکستان کا 180 ممالک کی فہرست میں 147 واں نمبر ہے۔ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رسائی اور احتساب نہ ہونے کی وجہ سے جان جوکھوں میں ڈال کر اپنے فرائض ادا کرنے والے صحافی اس کی قیمت چکا رہے ہیں۔ خاتون صحافیوں کے لئے تو یہ خطرات اور بھی زیادہ ہو جاتے ہیں، بالخصوصی ایسی خاتون صحافیوں کےلئے جو فری لانسر کے طور پر کام کرتی ہے جنہیں کسی بڑی ایجنسی کی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ زینت شہزادی کی کہانی پاکستان میں آخری کہانی نہیں ہے۔ انہیں معاملات کی وجہ سے بہت سے پاکستانی صحافی بیرون ممالک میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button