عوام کا معیارِ زندگی اور ہمارے حکمرانوں کا طرز عمل
ایک وقت تھا پاکستان کے اکثر بڑے شہروں کے علاوہ چھوٹے شہروں میں بھی پینے کے صاف پانی ، صحت، صفائی ، نکاسیِ آب ، سٹریٹ لائٹس و دیگر مسائل نا پید تھے۔ معمولی بارش سے شہروں کا تالاب کا منظر پیش کرنے کا تصور بھی نہ تھا۔ انگریز دور کے بنائے ہوئے سسٹم کے تحت نکاسیِ آب کا سسٹم ایسا تھا کہ بارش کا پانی جلد ہی دریاو¿ں ندی نالوں کے ذریعے نکل جاتا تھا۔ سڑکوں کے اردگرد کھلے فٹ پاتھ ، گرین بیلٹس قائم تھیں۔ تجاوزات کا کوئی تصور نہ تھا۔ تعلیمی اداروں میں دودھ کے ڈبے ، وظائف عام تھے۔ ہسپتالوں میں مفت ادویات کے ساتھ ساتھ صاف ستھرا ماحول اور کھانے پینے کی اشیاءبھی فراہم کی جاتی تھیں۔ پینے کے صاف پانی کی پائپ لائنز گندی آلودہ نہ تھی۔ نہ ہی جگہ جگہ گٹر ابل رہے ہوتے تھے لیکن اب بڑھتی ہوئی آبادی ، تجاوزات کی بھرمار ، فضائی آلودگی، شاپنگ بیگز ، بغیر منصوبہ بندی کے کی جانے والی غیر ضروری سڑکوں ، گلیوں کی تعمیرات و مرمتوں نے ہمارے سٹرکچر کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ خاص کر پرانے شہروں کا معیار زندگی پرانی آبادیوں میں قابل رحم ہے۔جو نئی آبادیاں ، کالونیاں تعمیر ہو رہی ہیں وہ بھی تمام تر سہولیات فراہم نہ کرنے کے باعث مسائل میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ آپ چھوٹے اور پسماندہ شہروں کو تو چھوڑیں ہمارے تین بڑے شہر جن میں اسلام آباد ، کراچی، لاہور پاکستان کے دل ہیں، میں بھی معیارِ زندگی عالمی معیار کے مطابق نہیں ہے۔ حالانکہ اسلام آباد شہر جو صدر ایوب خان کے دور میں نیا تعمیر ہوا پاکستان کی جان بلکہ خوبصورت نظاروں ، کھلی سڑکوں ، ٹریفک کے نظام و دیگر سہولیات کے باعث ایک عالمی معیار کا شہر ہے کو بھی ایک عالمی سروے کے مطابق دنیا کے230بہتر معیار کے شہروں میں193واں نمبردیا گیا ہے۔ اس سروے میں 17لاکھ کی آبادی والے شہر ویانا کو پہلا نمبر دیا گیا ہے۔ جبکہ پاکستان کے صرف تین شہر کراچی، لاہور، اسلام آباد230ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔ لیکن لسٹ میں یہ تینوں انتہائی نچلے درجے پر نظر آ رہے ہیں۔
کنسلٹنگ فرم ”مرکر“ کے معیار زندگی کے حوالے سے18ویں سروے میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد ، لاہور اور کراچی بالترتیب193 , 199 اور 202 نمبرپر موجود ہیں جبکہ فہرست میں آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کا مسلسل پہلا نمبر ہے۔ تقریباً 17لاکھ کی آبادی والے ویانا کے لوگ شہرکی ثقافت، خوبصورت میوزیم، تھیٹر اور اوپراز سے ہر وقت لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ویانا میں کرائے اور سفری اخراجات بھی دیگر مغربی ممالک سے کئی گنا کم ہیں۔ سروے کے مطابق سوئٹزر لینڈ کا شہر زیورخ معیار زندگی کے حساب سے دوسرے ، نیوزی لینڈ کا آکلینڈ تیسرے ، جرمنی کا میونخ چوتھے اور کینیڈا کا وینکووور پانچویں نمبر پر رہا۔چین کا شہر شنگھائی101ویں ، بیجنگ118ویں، گوانگ زو119ویں اور چینگدو 134ویں نمبر پر رہا۔ہندوستان کے حیدر آباد کو 139ویں ، پوناکو 144ویں بنگلور145ویں ، چنائی150ویں اور ممبئی152 پوزیشن پر قرار دیا گیا۔ شہریوں کے لئے محفوظ ترین شہر یورپی ملک لکسمبرگ کا دارالحکومت لکسمبرگ سر فہرست قرار دیا گیا۔ لوگو ں کے معیار زندگی کے حوالے سے کیے گئے اس سروے میں مجموعی طور پر یورپی شہر چھائے رہے اور فہرست میں سب سے بہترین 10شہروں میں یورپ کے7شہر ہیں۔ واضح رہے کہ اس طرح کے سروے کمپنیوں اور اداروں کو اپنے غیر ملکی عملے کے معاوضے اور الاو¿نس طے کرنے کا تعین کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
” مرکر“ کے اس سروے میں لوگوں کے معیار زندگی کو مختلف عوامل کی روشنی میں جانچا گیا جن میں سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی ماحول کے علاوہ دیگر کئی عوامل شامل ہیں۔
پاکستان کے شہروں کا بیڑا غرق کرنے میں کرپشن ، بد انتظامی، بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ بلدیاتی اداروں اور ان کے نمائندوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ جنرل مشرف کے ضلعی انتظام نے جہاں ایک طرف بیوروکریسی کے ذریعے چیک اینڈ بیلنس سسٹم کو تباہ کر کے رکھ دیا وہاں سڑکوں ، گلیوں کی بلا جوا ز اور بلا ضرورت تعمیرات نے پورے سسٹم کو متاثر کیا۔ کمیشن اور حصہ وصول کرنے کیلئے تجاوزات کروائی گئیں۔ کھیل کے میدان ، پارک تک کو نہ بخشا گیا۔ ان تک کو فروخت کر کے مال بنایا گیا۔ گرین بیلٹس کا بھی یہی حال ہوا۔بلدیاتی نمائندوں کی کرپشن کے ساتھ صوبائی و قومی اسمبلی کے ممبران کی کرپشن نے ہمارے ملک کے شہروں کے معیارِ زندگی کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ ہم نے لاہور ، اسلام آباد میں میٹرو بس شروع کی جبکہ لاہور میں اورنج ٹرین کیلئے کام زوروں پر جاری ہے۔ لیکن یہ المیہ ہے کہ کراچی ، لاہور جہاں کبھی ٹرام ، ڈبل ڈیکر اور اندرون شہر ٹرین کا مو¿ثر سسٹم موجود تھاہماری نااہلی اور کرپشن کے باعث بند ہوگئے۔ہم ان مذکورہ شہروں پراربوں روپے خرچ کر کے سفری سہولیات کیلئے کوشش تو کر رہے ہیں لیکن تا حال یہ شہر جو پاکستان کی آبادی کے نصف کے برابر ہیں میں آج بھی لوگ گیس ، بجلی ،پینے کے صاف پانی، صحت، تعلیم ، تفریح کی سہولیات سے محروم ہیں۔ ہمارے ہوٹل عالمی معیار کے نہیں ، اور نہ ہی ہم نے آلودگی کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی مو¿ثر اور ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ ہمارے چھوٹے شہروں کو تو چھوڑیں بڑے شہر بھی کسی ناگہانی آفت زلزلہ، سیلاب وغیرہ سے نپٹنے کی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔اس سارے سروے کی رپورٹ پیش کرنے کا مقصد ارباب اختیار کی توجہ دلانا تھا کہ کیا واقعی ہمارے بچوں کا مستقبل اور آنے والی نسلیں محفوظ ہیں کیا ہم تباہی کی طرف تو گامزن نہیں بظاہر نظر آنے والی ترقی ہماری جڑوں کو کھوکھلا تو نہیں کر رہی ہیں۔یہ وہ سوالات ہیں جو ہر ذی شعور اور سمجھ رکھنے والے فرد کے ذہن میں ابھر رہے ہیں جس کا جواب ایک دن تو ہمارے حکمرانوں کو دینا پڑے گا۔