بلا تفریق کڑا احتساب یا محض خواب!!!
کڑے احتساب کے دل خوش ک±ن نعرے سنتے عشرے بیت چلے لیکن معاملہ نعروں تک ہی محدودرہا۔آفرین ،صدآفرین کہ ہم غلام ابنِ غلام پھربھی یہ یقین کرتے رہے کہ ہمارے رہنماءجھوٹ نہیں بول سکتے۔بہرحال اب تواِس نعرے کوسنتے ہی رگ وپے میں صرف بیزاری ہی اترتی ہے جوسوچنے کی ہرراہ مسدودکر دیتی ہے کہ جیناآشاو¿ں ،ا±میدوں اور آرزوو¿ں کے زندہ رہنے کا دوسر انام ہے اور ہماری آرزوئیں تواشرافیہ کے خونیں جبڑوں میں دَم توڑتی ہوئیں۔چاروں طرف خزاو¿ں کے ڈیرے اوراندھیرے ہی اندھیرے۔مایوسیاں اپنی وسعتوں میں زمینوں اور رفعتوں میں آسمانوں تک پھیلتی ہوئیں۔ا±میدکی ہرکرن کرپشن کی آندھیوں کی زَدمیں اورمجبور بے بسی وبے کَسی کے چلتے پھرتے م±ردے۔ جوبھی آیا، قوم کوسہانے سپنوں سے بہلایا۔بھٹونے روٹی ،کپڑااور مکان کانعرہ لگاکر بیوقوف بنایا، ضیاءنے دینِ مبیں کا سپنادکھایا ،مشرف نے کڑے احتساب کی آڑ میں اپنی دکانداری کوچمکایااورباقی سب نے محض بہلایا پھ±سلایا اور رلایا۔
اِس کے باوجودہم مایوس نہیں کہ مایوسی کفرہے اِس لیے ہماراایمان کہ ا±میدوں کی کرنیں پھوٹیں گی ،آشاو¿ں کے دیپ جلیں گے نفرتیں ایک روز ختم ہوں گی مگر اسی وقت ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ لیکن کب؟۔۔۔۔ جواب کچھ پتا نہیں۔
وزیرِاعظم صاحب نے فرمایا” نیب حکام سرکاری افسروں کو ڈراتے ہیں۔معصوم لوگوں کے گھروں اور دفتروں میں گ±ھس جاتے ہیں۔ تصدیق کیے بغیرلوگوں کو تنگ کرناناقابلِ قبول ہے۔سرکاری افسران کوڈرانااور لوگوں کی عزتیں اچھالناٹھیک نہیں۔نیب اپنے دائرے میں رہے ورنہ کارروائی کریں گے“۔ دست بستہ عرض ہے کہ آئین کی روسے نیب آزاد ادارہ ہے۔یہ بجاکہ ایک لحاظ سے یہ ادارہ وزیرِاعظم صاحب کے ماتحت بھی ہے کیونکہ وہ پاکستان کے چیف ایگزیکٹوہیں لیکن کیا یوں سرِعام نیب پر گرجنا، برسنا مناسب تھا؟۔
تسلیم کیا کہ نیب میں خامیاں تھیں اور اب بھی ہیں کیونکہ اسے تو ہمیشہ سیاسی مخالفین کے پَرکاٹنے کے لیے استعمال کیاجاتا رہا۔احتساب کمیشن کاڈول فاروق لغاری مرحوم نے نومبر1996ءمیں ڈالا۔ پیپلزپارٹی سے حکومت چھیننے کے بعداقتدار کاہما بینظیرکے سرپر دوبارہ بیٹھتے دیکھنا ا±نہیں قبول نہ تھا۔ا±نہوں نے احتساب کمیشن کی آڑ میں ایسا کھیل کھیلا کہ پیپلزپارٹی چاروں شانے چِت۔ نواز لیگ نے حکومت سنبھالی تو سیف الرحمٰن کی سربراہی میں احتساب کمیشن کوجاری رکھا۔یہ وہی سیف الرحمٰن ہیں جو پرویزمشرف سے معافیاں مانگ کے منصب شہودسے یوں غائب ہوئے کہ تاحال مفقودالخبرہیں۔ مقصد نوازلیگ کابھی سیاسی حریفوں سے انتقام تھا۔1999ءمیں”مشرفی آمریت“ نے نیب تشکیل دی جس کامقصدسیاست دانوں کو بلیک میل کرکے اپنے ساتھ ملانااوراپنی کرسی کومضبوط کرناتھا۔آصف زرداری نے اپنے کرپشن کیسز ختم کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے تین حاشیہ برداروں کوچیئرمین نیب بنانا چاہا ،جن میں سے دوسرکاری افسران اورایک نیول چیف، لیکن چیف جسٹس چودھری نے سب کوچلتاکیا۔ پھرحکومت اور اپوزیشن کے متفقہ فیصلے پر قمرالزماں چودھری چیئرمین نیب بنے اوراب نیب کے لامحدود اختیارات کے خاتمے کے لیے نیب آرڈیننس کا ترمیمی مسودہ حتمی منظوری کے مراحل میں ہے۔
باوجود اِس کے کہ پیپلزپارٹی بظاہر اِس ترمیمی آرڈیننس کی مخالفت کررہی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ نوازلیگ سے اپنی کچھ شرائط منواناچاہتی ہے۔قارئین کویاد ہوگا کہ اپنے دورِحکومت میں پیپلزپارٹی ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے نیب کے اختیارات محدودکرنا چاہتی تھی لیکن نوازلیگ کی بھرپور مخالفت کی بناپر ایسانہ کرسکی۔ط±رفہ تماشا یہ کہ کپتان صاحب اب ا±سی قمرالزماں چودھری کی حمایت میں ڈَٹ کرکھڑے ہوگئے ہیں جن کی تقرری پروہ سوال اٹھاتے رہے۔
خیر! خاں صاحب کی تو”یوٹرن“ لینے کی عادت پختہ ہوچکی اسی لیے ا±نہیں یہ بھی یاد نہیں کہ وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا پرویزخٹک نے جب یہ دیکھا کہ نیب ا±ن کے وزراءپرہاتھ ڈالنے کے منصوبے باندھ رہی ہے توا±نہوں نے فوری طورپر خیبرپختونخواکے احتساب کمیشن میں ترامیم کرکے ا±س کے اختیارات پرپہرے لگادیئے۔ خیبرپختونخوا کے چیئرمین احتساب کمیشن لیفٹیننٹ جنرل (ر) حامدخاں اِس بے اختیار ”چیئرمینی“ پر مستعفی ہوکر گھر بیٹھ رہے اورکے پی کے حکومت کوکھ±ل کھیلنے کاموقع مل گیا۔وزیرِاعظم صاحب نے بھی نیب کی کارکردگی پروہی سوالات اٹھائے ہیں جو اِس سے پہلے پرویزخٹک صاحب نے اٹھاکر ترامیم کیں۔اب کپتان صاحب فرمارہے ہیں کہ وہ خیبرپختونخوا کی طرف سے لائی گئی ترامیم پرنظرِثانی کے لیے تیارہیں۔سوال مگریہ ہے کہ کیاوہ ”نظرِثانی“ حبِ علیؓ کے تحت کررہے ہیںیا بغضِ معاویہ کے تحت؟
قوم توبہرحال ہرا±س شخص کے ساتھ ہے جوکڑے احتساب کی نویدسنائے۔سپہ سالارجنرل راحیل شریف کی بے پناہ مقبولیت کاسبب بھی یہی ہے لیکن خاں صاحب کی اِس حمایت کوکِس خانے میں ”فِٹ“ کریں۔
وزیرِاعظم صاحب اورا±ن کے افلاطونی مشیران کوذہن میں رکھناہو گاکہ اگر چیئرمین نیب قمرالزماں چودھری یکلخت کڑے احتساب کے لیے میدان میں کود پڑے ہیں تو اِس کی کوئی نہ کوئی وجہ توضرور ہوگی۔میاں صاحب نے توایک اشارہ دیاجو بہت خوفناک ہے اورخطرناک بھی۔ا±نہوں نے فرمایا ”حکومتیں عوام کے ووٹوں سے بنتی ہیں لیکن ا±نہیں توڑتاکوئی اورہے“۔ ا±دھر راناثناءاللہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ا±نہوں نے کہا ”اگرکسی کی خواہش پرکچھ کیاجائے گاتو ہم نہیں ہونے دیں گے“۔ سوال مگریہ کہ ”کِس“ کی خواہش پر؟۔ یہ تو راناثناءاللہ ہی بتاسکتے ہیںیاپھر وزیرِاعظم صاحب لیکن اطراف وجوانب سے ا±ٹھنے والی سرگوشیاں پاکستان کی فضاو¿ں کو مسموم ضرورکر رہی ہیں۔کچھ بَدباطن تویہ بھی کہہ رہے ہیں کہ میاں نوازشریف صاحب بس اتنے ہی عرصے کے بعداقتدارسے بیزارہو جایاکرتے ہیں جتناعرصہ وہ گزار چکے۔ہم تووزیرِاعظم صاحب سے دست بستہ یہی عرض کریں گے کہ وہ اپنی اداو¿ں پہ غورفرما لیں تویہ ا±ن کے حق میں بھی بہترہوگا اورقوم کے حق میں بھی کیونکہ قوم نے ا±ن سے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ لیکن میاں صاحب کے ماضی کودیکھتے ہوئے یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہی تلخ حقیقت ہے۔