Tayyab Mumtaz

حقوق کیساتھ فرائض بھی پہچانیں

پاکستانی حکومت کی دلیل یہ ہے کہ پی آئی اے کو بچانے کا واحد طریقہ، ا سکی نجکاری ہے۔ یہ عمل خود انجام دیتے ہوئے حکومت در حقیقت اپنی نااہلی کا اعتراف کررہی ہے۔ ایک زمانے میں پی آئی اے انتہائی اعلیٰ فضائی کمپنی اور پاکستانیوں کیلئے فخر کا باعث تھی۔ اس کے بعد مختلف حکومتوں نے اپنے کارکنوں کونوازنے کیلئے اسے روزگار کاایک ادارہ بنا دیا۔
نجکاری پر مشتمل دلیل، ایک سازشی دلیل ہونے کے علاوہ بظاہر دروغ گوئی ہے ۔دنیا میں اکثر کامیاب فضائی کمپنیاں، حکومت کی ملکیت ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی ایمرٹس، اس امر کی روشن مثال ہے کہ کس طرح حکومت کی ملکیت ایک فضائی کمپنی نے عالمی سطح پر برتری حاصل کر لی۔ یہی کچھ اتحاد اور قطر ائیرویز کے متعلق بھی کہا جاسکتا ہے۔ایمرٹس اور دیگر فضائی کمپنیاں اس لیے ترقی کر گئیں کیونکہ انہوں نے تجارتی انتظام کاری کا ایک اہم اصول اپنا لیا تھا، مالکان کو ناظمین نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے چونکہ متحدہ عرب امارات کی حکومت ،ایمرٹس کی مالک ہے یہ کمپنی کی انتظامیہ میں مداخلت نہیں کرتی تاکہ یہ پیشہ وارانہ انداز میں اپنے امور طے کر سکے۔
اس فضائی کمپنی کی ایک خود مختار مجلس ہے۔ اس کا سی ای او، ٹائم کلارک، فضائی کمپنیوں کی صنعت میں بطور ایگزیکٹو کام کرچکا ہے۔ اس نےBritish Caledonian سے کام شروع کیا پھر وہ سری لنکا کی فضائی کمپنی میں چلا گیا اور پھر بہت زیادہ تجربہ حاصل کرنے کے بعد ایمرٹس میں اعلیٰ عہدے سے فائز ہو گیا۔
اس فضائی کمپنی، جس کا وہ سربراہ ہے،نے اپنے قیام کے دوسرے برس ہی کمانا شروع کر دیا اور تقریباً چار برس بعد اس کے حجم میں دگنا اضافہ ہو گیا۔ یہ ادراک کرنے میں ایک تلخ استہزائی صورت یہ ہے کہ ایمرٹس کو پی آئی اے نے قائم کیا۔ عملے کے جہاز بھی پی آئی اے سے ٹھیکے پر لیے گئے، در حقیقت ، ایمرٹس کی ابتدائی پروازوں کو پی آئی اے کے پائلٹس ہی نے اڑایا۔
اور آج جبکہ ایمرٹس عروج پر ہے، افسوس کا مقام ہے کہ پی آئی اے کے تمام جہاز پی آئی اے عملے کی ہڑتال کے باعث ملک بھر کے ہوائی اڈوں پر بے کار کھڑے ہیں جو نجکاری کے خلاف جاری ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ پی آئی اے دوبارہ فضاﺅں میں اڑان بھرسکتی ہے لیکن اس کیلئے کڑوی دوا کا استعمال ضروری ہے۔
حکومت کو ان اصولوں کی انتہائی اہمیت کا ادراک کرنا ہوگا جنہیں اس وقت دنیا بھر میں تجارتی انتظام کاری کے اصول کہا جاتا ہے جو اصولوں، طریقوں اور مراحل پر مشتمل ہے ایک ایسا نظام ہے جس کی بنیاد پرکمپنی کا انتظام چلایا جاتا ہے۔اس نظام کے تحت، کمپنی کے متعلقہ تمام فریق کے مفادات میں توازن برقرار رکھا جاتا ہے جن میں اس کے حصہ دار، انتظامیہ، گاہک، مالی معاون، حکومت اور معاشرہ شامل ہیں۔
بلا شبہ، دنیا بھر کے نجی اور سرکاری بڑے اور کامیاب ترین تجارتی ادارے، اس وقت یہ اصول اپنائے ہوئے ہیں۔ ان اصولوں کو عالمی سطح پربین الاقوامی تنظیموں مثلاOECD اورIMF کی معاونت اور حمایت حاصل ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ اور افریقہ کیلئے اس نظام کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہے۔آئی ایم ایفPakistan Institute of Corporate Governance کی بھی معاونت کرتا ہے۔ یہ ایک غیر منافع بخش گروپ ہے جس کا انتظام اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار پاکستانی پیشہ وار ماہرین کے ہاتھ میں ہے جو پاکستانی کمپنیوں کے ڈائریکٹرز اور منیجرز کیلئے کورسز کا اہمتام کرتے ہیں۔ کارپوریٹ گورننس کیلئے آئی ایم ایف کی طرف سے زبردست معاونت اور حمایت کے باعث،یہ ایک قسم کی پہیلی ہے کہ انہوں نے کبھی زور نہیں دیا کہ کارپوریٹ گورننس کے اصول پی آئی اے پر لاگو کئے جائیں بلکہ اس نے حکومت پر دباﺅ ڈالا ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کی جائے۔
آئی ایم ایف کا ایجنڈا جو کچھ بھی ہے، اس سے قطع نظر حکومت کو وہ کچھ کرنا چاہیے جو اس کے بینکاروں کے مفاد میں نہیں بلکہ ملک کے مفاد میں ہو۔ یہ وہ خاص اقدامات ہیں جو پی آئی اے کو بچانے کی خاطر حکومت کو کرنے چاہیں،کارپوریٹ گورننس کے اصول پی آئی اے پر لاگو کئے جائیں، انتہائی پیشہ وارانہ ڈائریکٹرز پر مشتمل ایک خود مختار بورڈ کا قیام اورفضائی کمپنیوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تجربہ کے حاملہ چیف ایگزیکٹو کی تعیناتی اولین ترجیح ہونی چاہئے ۔
اس سے یہ مراد نہیں کہ پی آئی اے کی بحالی میں حکومت کا کوئی کردار نہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ مسابقتی ماحول میں ایک بنیادی عدم توازن کو دور کریں۔ کھلا آسمان، بین الاقوامی فضائی کمپنیوں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ پاکستان کے کسی بھی شہر کے لیے اپنی مرضی کے مطابق پروازیں چلائیں۔
اور پھر یہ بھی ہونا چاہیے کہ پی آئی اے کی بیلنس شیٹ میں برسوں کے نقصان کا عدد نکال دینا چاہیے۔ یہ رقم واپس نہیں آئے گی اور پی آئی اے کو نئی ابتدا کرنی چاہیے۔
ایک ایسی قوم جو جوہری ہتھیار بنا سکتی ہے، یقینی طور پر اپنی فضائی کمپنی کا بھی موثر طور پر انتظام کر سکتی ہے۔ اس وقت اخلاص، کارپوریٹ گورننس کی اپنائیت اور ایک سازگار ماحول درکار ہے۔ اب ہمیں اس نعرے میں نئی زندگی ڈال دینی چاہیے جو عروج کے زمانے میں پی آئی اے کا طرہ امتیاز تھا، یعنی، باکمال لوگ، لاجواب سروس۔
میں یہاں یہ بات کہنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ہماری قوم کا ایک مزاج بن چکا ہے کہ ہم جہاں بیٹھے کام کر رہے ہیں اپنی ذمہ داریوں سے قطع نظر ہونا اپنا فرض سمجھتے ہیں جس میں سرکاری ملازم اول نمبر پر ہیں جس کی وجہ سے ہماری قوم دن بدن زوال کا شکار ہو رہی ہے اس لیے ہمیں چاہیئے کہ اپنے حقوق کیساتھ ساتھ فرائض کو بھی یاد رکھیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button