Tayyab Mumtaz

جنرل راحیل شریف کا توسیع نہ لینے کا اعلان

پاک فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کا اعلان کر کے ہرقسم کی افواہوں کا خاتمہ کردیا ہے کیونکہ سیاسی، دفاعی اور حکومتی حلقوں میں یہ معاملہ زیر بحث تھا اور بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی تھیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو حکومت توسیع دیدیگی اور اس حوالے سے وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے درمیان معاملات طے پا چکے ہیں۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ کور کمانڈرز نے بھی آرمی چیف سے کہا ہے کہ وہ اپنا ٹاسک لازمی مکمل کریں تاہم جنرل راحیل شریف نے اپنی مدت ملازمت ختم ہونے سے دس ماہ قبل ہی واضح کر دیا ہے کہ وہ انتیس نومبر دو ہزار سولہ کو اپنی مدت پوری ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے کیونکہ وہ توسیع پر یقین نہیں رکھتے۔ انہوں نے پاک فوج کو ایک عظیم ادارہ قرار دیا اور دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ بھی انہوں نے پوری قوت اورجوش و خروش سے جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ یہ واضح کرتا ہے کہ ان کے بعد آنے والے آرمی چیف بھی اس لعنت کے خاتمے کیلئے اسی جذبے سے کام کریں گے جس سے اس وقت فوج کررہی ہے اور دہشت گردوں کو نشان عبرت بنا دیا گیا ہے پھر آرمی چیف کا یہ جملہ بڑا اہمیت کاحامل ہے کہ قومی مفادات سب سے اہم ہیں اور ان کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا یعنی وہ خود بھی توسیع کے حامی نہیں تھے اور واقفان حال کا کہنا ہے کہ انہوں نے تو برکی روڈ لاہور پر اپنے گھر کی تعمیر بھی شروع کروا رکھی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں حکومتی حلقوں میں انہیں توسیع کے حوالے سے مختلف آراءپائی جاتی تھی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت کے کسی اعلیٰ سطح کے فورم پر یہ معاملہ ابھی تک زیر بحث نہیں آیا تھا البتہ پیپلزپارٹی، اے این پی، تحریک انصاف سمیت اکثر جماعتوں نے ان کے اعلان سے قبل ہی یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ وہ توسیع نہ لیں اور اسی لئے ان جماعتوں نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیر مقدم بھی کیا ہے دوسری طرف جنرل راحیل فوج جیسے منظم ادارے کو کسی صورت متنازعہ یا سیاسی نہیں بنانا چاہتے اسی لئے انہوں نے دس ماہ قبل ہی افواہوں کا خود گلہ گھونٹ دیا کیونکہ اب اس معاملے پر بعض لوگ عدالتوں میں بھی چلے گئے تھے اور جنرل راحیل ایسے کسی بھی معاملے کو اس طرح کے فورمز پر بھی لے جانے کے سخت مخالف ہیں جوکہ ان کی ذات سے متعلق ہو اور اس کی کئی مثالیں موجود ہیں اسی لئے وہ پوری قوم اور سیاسی جماعتوں میں ایک ایماندار اور ڈسپلن کے پکے جرنیل مانے جاتے ہیں جنہوں نے آئین اور قانون کی ہمیشہ پاسداری کی اور خود کو سیاسی تنازعات سے دور رکھا جس کی وجہ سے وہ سب کیلئے قابل احترام ہیں سابق آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کو جب توسیع دی گئی یا انہوں نے توسیع لی تھی تو اس وقت بہت کچھ کہا گیا تھا اور اب تک بہت سے حلقے ان کی توسیع پر تنقید کررہے ہیں اور جنرل راحیل شریف کو ساری صورت حال کا علم تھا اسی لئے انہوں نے بہترین فیصلہ کیا ہے جسے سراہا جارہا ہے بے شک کہ عوامی حلقے چاہتے ہیں کہ ان کو توسیع ملے اور حکومت پر دباﺅ بھی بڑھ رہا تھا مگر جنرل راحیل شریف نے تو وزیراعظم نواز شریف کا کام بھی آسان کر دیا ہے اور بہترین قومی مفاد میں فیصلہ کیا ہے۔
اب بات ہو جائے سانحہ چارسدہ کی جس میں بائیس لوگوں کی جانیں گئیں، طلباءاور سٹاف سمیت گارڈز نے شہادت پائی مگر دہشت گردوں کو انجام تک پہنچا دیا گیا اور اس میں بھی ہماری فوج اور انٹیلی جنس اداروں نے قابل قدر کام کیا کہ صرف دو سے تین دنوں میں اس سانحہ کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروںتک پہنچ گئے اور چار سہولت کاروں کو پکڑ کر میڈیا کے سامنے پیش بھی کر دیا گیا جس سے ہماری عسکری قیادت کا دہشت گردی کیخلاف عزم ظاہر ہوتا ہے آرمی چیف جنرل راحیل شریف اس سانحہ کے دن بھی چارسدہ گئے اور پھر دوبارہ پشاور کا دورہ کیا خصوصی سکیورٹی کانفرنس منعقد کی اور اس واقعے کو چیلنج کے طور پر لیا ساتھ ہی انہوں نے افغان صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل جان کیمبل سے رابطے کئے ان پر واضح کر دیا کہ اس واقعے میں افغان سر زمین استعمال ہوئی اور ماسٹر مائنڈ وہاں سے بیٹھ کر دہشت گردوں کو کنٹرول کررہا تھا اس لئے ان کیخلاف کارروائی کی جائے اور انہیں کٹہرے میں لایا جائے اب دیکھنا یہ ہے کہ افغان قیادت اور امریکی جنرل اس حوالے سے پاکستان کی کس حد تک مدد کرتے ہیں کیونکہ انہیں تمام تر شواہد فراہم کئے جاچکے ہیں مگر آرمی پبلک سکول کے واقعہ کے بعد اس واقعہ کا ہونا بہت سے سوالات کو بھی جنم دیتا ہے اسی لئے قومی ایکشن پلان پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں اور ہمارے عسکری اداروں کے بھی اس پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے تحفظات ہیں اور یہ بات درست ہے کہ ہماری مسلح افواج اور فوجی انٹیلی جنس ادارے اپنے حصے کا کام بخوبی کررہے ہیں جانوں کی قربانی بھی دے رہے ہیں اور دہشت گردوں کو نیست و نابود بھی کررہے ہیں مگر باقی ادارے اپنا کردار پوری طرح ادا نہیں کررہے ۔قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کی نگرانی کیلئے بننے والی پارلیمانی کمیٹی کا آج تک اجلاس نہیں ہوا صوبوں اور وفاق میں اس حوالے سے عدم اعتماد بھی ہے اور عدم تعاون بھی اختیارات اور فنڈنگ کے معاملے پر لڑائی ہو رہی ہے جو کسی صورت موجودہ صورت حال میں ملکی مفاد میں نہیں ہے یہ بات بھی درست ہے کہ قومی ایکشن پلان کے بیس نکات میں سے نصف پر پوری طرح یا مکمل طور پر عمل ہی نہیں ہوا اور اس کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ دہشت گردوں کو کسی صورت دوبارہ سر اٹھانے کی اجازت نہ دی جائے جنرل راحیل شریف کہتے ہیں کہ رواں سال دہشت گردی کے خاتمے کا سال ہو گا تو اس کو یقینی بنانے کیلئے پوری قوم ان کا ساتھ دے رہی ہے تو حکومت بھی دے اور متعلقہ ادارے اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں کیونکہ جو واقعات رواں سال میں اب تک ہو چکے ہیں وہ باعث تشویش ہیں قومی ایکشن پلان کو سیاست کی نظر نہ کیا جائے بلکہ اسے عملی طور پر دہشت گردی کے خاتمے کیلئے استعمال کیا جائے اور اس حوالے سے تمام سول و عسکری اداروں کا عملی طور پر ایک صفحے پر ہونا ناگزیر ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button