جوڈیشل کمیشن رپورٹ عمران خان کے تحفظات
ہفتہ کو بنی گالہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ’کمیشن نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ دھاندلی کے حوالے سے تحریک انصاف کو موقف جائز تھا،جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آنے سے تبدیلی آئے گی، جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس ناصر الملک کے پوائنٹ اجاگر کرنے کی تعریف کرتا ہوں اس انویسٹی گیشن کوسب کو پڑھنا چاہئے یہ صرف جوڈیشل کمیشن کے سامنے ہی آسکتی تھیں ’ میرے سوال وہیں کے وہیں رہ گئے، کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس رابطے کا کوئی طریقہ نہ تھا رابطے کا فقدان تھا مجھے جوڈیشل کمیشن کی کارروائی پر فخر ہے، انگوٹھوں کے نشانات کی چیکنگ کیلئے الیکشن کمیشن اور نادرا کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے،رپورٹ میں ہے کہ الیکشن کمیشن کو علم ہی نہیں تھا کہ الیکشن کس طرح ہورہے ہیں، نیچے عملے کی ٹریننگ بھی نہ کروائی گئی چین آف کمانڈ غیر مو¿ثر تھا، چاروں صوبوں میں جو ممبر تھے جوڈیشل کمیشن کے مطابق ان کا الیکشن میں کوئی رول نظر نہیں آیا، ڈی جی الیکشن کمیشن لاعلم رہے کہ کتنے اضافی بیلٹ پیپرز چھاپے گئے،جوڈیشل کمیشن نے الیکشن کمیشن کے صوبائی الیکشن کمیشن کے درمیان رابطے کے فقدان کا بھی فیصلے میں ذکر کردیا ہے اس لئے الیکشن کمیشن کے ارکان اب مستعفی ہو جائیں، میں معافی نہیں مانگوں گا، انتخابات کی کوئی مانیٹرنگ نہیں تھی، 35 فیصد فارم 15 نہیں نکلے،اڑھائی کروڑ فارم 15غائب ہیں پھر کیسے الیکشن قانون کے مطابق ہوئے؟ سوال یہ ہے کہ کتنی دھاندلی ہوئی،جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد ہمارے ارکان قومی اسمبلی میں جائیں گے‘۔ اس فیصلے کے خلاف سڑکوں پر نہیںآئیں گے لیکن الیکشن کمیشن کے ارکان اگر مستعفی نہیں ہوتے تو ان پر اعتماد کون کرے گا۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس رپورٹ کے بعد موجودہ الیکشن کمیشن کے ارکان مستعفی ہوجائیں کیونکہ جوڈیشل کمیشن کے مطابق وہ فیل ہوگئے تھے یہ منظم دھاندلی تھی جوڈیشل کمیشن جب بیٹھا میں نے کہا جو بھی فیصلہ کریگی قبول کروں گا جو میں نے قبول کرلیا ہے اور آج بھی میں اپنے اس عہد پر کھڑا ہوں‘۔
یہ امر عوامی و سیاسی اور جمہوری حقوق کے لئے موجب طمانیت ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر بھرپور تحفظات کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے انتہائی سنجیدہ گفتگو کی اور مذکورہ رپورٹ کے مندرجات کو نکتہ وار پیش کرنے کے بعد یہ فیصلہ میڈیا اور قوم پر چھوڑ دیا کہ اگر عام انتخابات میں کمیشن کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کی کارکردگی ناقص رہی تو الیکشن کوکس طرح شفاف قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ رپورٹ دراصل الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لئے ایک لمحہ فکریہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یقیناًاس میں اس کی بری کارکردگی اورعدم اہلیت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ عمران خان کی بنی گالہ میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے اپنے تحفظات کا اظہار سنجیدہ لہجے اور مناسب الفاظ میں کرکے یہ ثابت کردیا کہ انہوں نے حالات کی گردشوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ اپنی جماعت کی داخلی سطح پر تطہیر کے عمل کو آگے بڑھائیں اور اس کی تنظیمی استعداد میں اضافے کے لئے کارکنوں کی خصوصی تربیت کا اہتمام کریں۔ انہوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا یقیناًیہ ان کا آئینی اور جمہوری حق ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کے کردار کی بھی تعریف کی۔ واضح کیا کہ وہ اب پارلیمانی سیاست کریں گے اور ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمان کے فلور پر حکومتی افعال و اعمال کو انتقاد و احتساب کے میزان میں تولنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ ان کا بنیادی نعرہ نظام کی تبدیلی ہے۔ انہیں نظام کی کمزوریوں کو اجاگر کرنا ہوگا تاکہ وہ مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں بدستور پہلی بڑی متبادل سیاسی جماعت کے طور پر اپنا آپ منوا سکیں۔
یہاں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں عمران خان کو چاہئے کہ وہ اب اپنی تمام تر توجہ الیکشن ریفارمز پر مرکوز کر لیں اور حکومت کو مجبور کر دیں کہ وہ الیکشن ریفارمز کرے اور تمام اپوزیشن جماعتیں جو کہ دھاندلی کا رونا روتی رہتی ہیں اس میں بھرپور حصہ لیں اور اپنی تجاویز اور الیکشن کروانے کے معاملے کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کریں۔