Tayyab Mumtaz

بے نظیر بھٹو شہید کے قتل کا ذمہ دار کون ؟

پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے نوڈیرو میں سابق وزیراعظم اور پی پی کی شہید چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر کارکنوں اور رہنماﺅں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”محترمہ نے اپنی شہادت سے پہلے لکھوایا کہ مجھے کچھ ہوا تو ذمہ دار مشرف ہو گا، جنرل کے ساتھ ایف آئی آر میں شریک ملزمان بھی ہیں جن پر کیس چل رہا ہے ، ایف آئی آر واپس نہیں لے سکتا ، ایف آئی آر محترمہ نے خود لکھوائی، وہ نہ میں نے لکھوائی اور نہ کسی اور نے “۔
نوڈیرو میں محترمہ کی سالگرہ کے موقع پر سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے بعض مندرجات لائق توجہ ہیں ۔ بلا شبہ انہوں نے پرویز مشرف کے خلاف ایف آئی آر واپس نہ لینے کا اعلان پیپلزپارٹی کے جیالوں کا مورال بلند کرنے کے لیے کیا ہے ۔ محترمہ صرف پی پی پی ہی کی چیئر پرسن نہیں تھیں بلکہ اس ملک کی دو مرتبہ وزیراعظم بھی رہ چکی تھیں ۔ یہ اتنا بڑا سانحہ تھا کہ آصف زرداری نے30دسمبر2007ءکو کہا تھا کہ ”محترمہ کے قتل کے شواہد کا جائزہ لینے اور حقیقی قاتلوں کا سراغ لگانے کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کیا جائے گا “۔ بعدازاں جب پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو ابتدائی ایام میں سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کی خدمات اس قتل کے ذمہ داران کا کھوج لگانے کے لیے مستعار لی گئیں اور قومی خزانے سے اسے بھاری معاوضہ بھی ادا کیاگیا لیکن پیپلزپارٹی کے عہد حکومت میں اعلیٰ حکام کے عدم تعاون کی وجہ سے سکاٹ لینڈ یارڈ کی کاوشیں بھی بے نتیجہ رہیں اور محترمہ کا قتل27دسمبر2007ءسے تا دم تحریر ایک معمہ بنا ہوا ہے ۔ قوم آج بھی محترمہ کے حقیقی قاتلوں بارے جاننا چاہتی ہے ۔ وہ یہ بھی جاننا چاہتی ہے کہ آخر پیپلزپارٹی کے عہد حکومت میں محترمہ ، بلاول ہاﺅس اور ان کے جلسوں اور جلوسوں میں سکیوری کے فرائض انجام دینے والے کارکنوں کو ایک ایک کرکے لقمہ اجل کیوں بنایا جاتا رہا ۔ عام آدمی منور سہروردی، بلا ل شیخ اور بے نظیر بھٹو کے چیف سکیورٹی گارڈ خالد شہنشاہ ایسے کارکنوں کے قتل کے بعد یہ سوال کرتا رہا کہ محترمہ کی سکیورٹی پر مامور ان کے جاں نثاروں کو وہ کونسا نادیدہ ہاتھ تھا جس نے راستے سے ہٹایا ۔ عام پاکستانی یہ جاننا چاہتا ہے کہ محترمہ کے قاتلوںکا سراغ اگر پیپلزپارٹی اور آصف علی زرداری کے دور صدارت میں بھی نہیں لگایا جاسکا تو کیا ان کا قتل بھی پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے قتل کی طرح پُراسرار رہے گا ۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے مارچ2008ءمیں تمام پارٹی تنظیموں کو ہدایت کی تھی کہ بے نظیر بھٹو شہید کی وصیت پارٹی دفاتر میں آویزاں کی جائے ۔ کاش وہ مارسیگل نامی امریکی صحافی کو اپنے قتل کے خدشے کے تحت کی گئی میل کو بھی پارٹی دفاتر میں آویزاں کرنے کی ہدایت کرتے ۔ یاد رہے کہ اس میل میں بے نظیر نے کہا تھا کہ اگر ان کو قتل کیاگیا تو اس کے ذمہ دار پرویز مشرف اور مسلم لیگ ق کے رہنما ہوں گے ۔لیکن پیپلزپارٹی کے برسرار اقتدار آنے اور جناب زرداری کے صدر مملکت بننے کے بعد ادھر ادھر کی باتیں تو ضرور کی گئیں لیکن پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے انہیں گارڈ آف آنر دے کر ایوان صدارت سے رخصت کیاگیا ۔ اسی پر بس نہیں بلکہ انہیں بیرون ملک جانے کی بھی اجازت دی گئی اور بی بی کے سوئم پر جس جماعت کو قاتل لیگ کہا گیا، اس کے ایک اہم لیڈر کو پیش پا افتادہ مفادات اور سیاسی اغراض کی خاطر ڈپٹی پرائم منسٹر بنا دیاگیا ۔ عجب انداز میں مقتولہ کی میل میں قتل کے نامزد ملزمان کو خصوصی مراعات سے نوازا گیا ۔ کیا یہ مرحومہ کی روح اور لہو کے ساتھ وفاداری تھی ۔ پیپلزپارٹی کے اقتدار کے دنوں میں سابق صدر آصف زرداری کی جانب سے بزبان حال یہی تاثر دیا جاتا رہا کہ مناسب وقت پر اس سانحہ میں ملوث اصل قاتلوں کے چہروں سے نقاب ہٹا دیں گے لیکن فی الوقت وہ ان طاقتور قاتلوں کے ساتھ تنازع مول نہیں لینا چاہتے ۔ گماں گزرتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے7سال5ماہ26دن بعد ….21جون 2015ءکو نوڈیرو کے جلسے سے خطاب کے دوران انہیں منکشف ہوا کہ بے نظیر کا ایک قاتل باقی ہے ۔ سابق جرنیل پر ایف آئی آر واپس نہیں لے سکتے ۔ جیالوں کی خواہش ہے کہ مرد مفاہمت اب اپنے موقف پر قائم رہیں ۔ وہ بھول چکے ہیں کہ جب میاں نواز شریف کی حکومت نے مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل6کے تحت مقدمہ چلایا توا ن کی پارٹی نے اخلاقی حمایت فراہم کرنے اور بھرپور ساتھ دینے میںلیت ولعل سے کام لیا محترمہ بے نظیر کا قتل یقیناایک قومی المیہ تھا ۔
تصویر کا یہ رخ بھی پیش نظر رہے کہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اکبر بگٹی کے قتل، لال مسجد کے عبدالرشید غازی کے قتل ، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو حبس بے جا میں رکھنے اور آئین کے آرٹیکل6کے تحت آئین کو پامال کرنے اور غداری کے مقدمات میں نامزد ملزم ہیں اور ان پر مقدمہ چل رہا ہے اوریہ ایک ایسا ملزم ہے جو غداری کے مقدمے میں صرف ایک بار عدالت میں پیش ہوا، اکبر بگٹی اور عبدالرشید غازی کے مقدمے میںیہ آج تک پیش ہی نہیں ہوا ۔وہ اپنے اس رویے سے عدالتی نظام، آئین اور قانون کو برسرعام چیلنج کررہا ہے ۔ اگر وہ بے قصور ہے تو اسے عدالت میں یہ ثابت کرنے کے لیے کھلے بندوں پیش ہوجانا چاہیے کہ اگر اس ملک میں ایسا ہی ہوتا رہا کہ کچھ لوگ اپنے آپ کو احتساب، قانو ن، آئین اور عدلیہ سے بڑا ثابت کرتے رہے اور قانون ان کے لیے موم کی ناک بنتا رہا تو ایسا نہ ہو کہ عام شہری بھی پرویز مشرف کو دی جانے والی رعایات اور مراعات کے حصول کامطالبہ کرسکتے ہیں ۔ زرداری صاحب کی شہرت اور کارکردگی سے قطع نظر ان کے مطالبے پر سنجیدگی سے عملدرآمد ہوناچاہیے ۔ ہم حکومت کو انتباہ کرتے ہیں کہ اگر اس ضمن میں تساہل اور تغافل سے کام لیا تو اس کے نتائج جمہوری اقدار اور روایات کے لیے بہتر ثابت نہیں ہوں گے یہ عوامی مطالبہ ہے کہ بے نظیر قتل کیس کا فیصلہ ہونا چاہیے ۔
کون نہیں جانتا کہ پرویز مشرف نے پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ پر اثر انداز ہونے والے اہم فیصلے بھی اپنی صوابدید سے کئے ، جن میں امریکہ کو ہوائی اڈوں کی فراہمی اہم ترین اقدام تھا ۔ افغانستان پر قابض امریکی افواج سے اس خفیہ معاونت نے ردعمل میں دہشت گردی کو ہوا دی ۔ عام آدمی کا مطالبہ ہے کہاگر ایک وزیراعظم کو قید اور ایک کو نااہل قرار دیا جاسکتا ہے تو ایک آمر کو اس کے جرائم کی سزا کیوں نہیں دی جاسکتی ؟ ایک طرف سابق وزرائے اعظم کو ہتھکڑیاں لگا کر جیل کی کال کوٹھڑیوں میں بھیجا جاسکتا ہے تو جنرل (ر) مشرف کے لیے اس کا پُرتعیش فارم ہاﺅں سب جیل کیوں بنایاگیا۔ اب وہ کراچی میںاپنی بیٹی کے گھر حفاظتی حصار میں مقیم ہیں ۔ یہ امتیازی رویہ کس بنا پر ؟ انہیں صرف ایک بار2013ءمیں چک شہزاد کے فارم ہاﺅں سے پورے پروٹوکول کے ساتھ پولیس ہیڈ کوارٹر منتقل کیاگیا تھا ۔ بعدازاں جوڈیشل مجسٹریٹ اسلام آباد نے19اپریل 2013ءکو جنرل (ر) پرویز مشرف کا دو روزہ ریمانڈ دیتے ہوئے انہیں انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ۔ انہیں گرفتار کرکے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیاگیا ۔ یاد رہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ6کی سزا 14سال ہے ۔حالانکہ پرویز مشرف نومبر2007ءکو اعتراف جرم کرچکے تھے کہ ایمرجنسی ناگزیر تھی، آئین کے باب اول میں دئیے گئے چند حقوق معطل کیے گئے ہیں ۔ یاد رہے کہ انہی دنوں پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا سینٹ نے ایک بار پھر منظور کردہ قرار داد میں مطالبہ کیا تھا کہ فوجی آمر کے خلاف جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے اور آئین کوپامال کرنے کے جرم میں آئین کی شق6کے تحت غداری کا مقدمہ چلایا جائے ۔ ایوان بالا میں یہ قرار داد اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اسحاق ڈارنے پیش کی تھی جو تمام جماعتوں نے متفقہ طور پرمنظورکی ۔ جمہوری اصول کا تقاضا تھا کہ اس کی منظور کردہ قرار داد پر پوری طرح عمل کیا جاتا ۔ سیاسی مبصرین کی رائے کے مطابق اسی میں پاکستان کی سلامتی کا راز مضمر ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button