کنٹونمنٹ بورڈز کے پُرامن انتخابات!!!

سچ تو یہ ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کرانے پر اصل مبارکباد کے مستحق پاکستان کی سب سے بڑی عدالت انصاف ہے ۔ اس ضمن میں عدالت عظمیٰ اور عدالت ہائے عالیہ کے کردار سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔ بلدیاتی انتخابات کی اہمیت سپریم کور ٹ نے ہی اجاگر کی ۔7فروری2014ءکو سپریم کورٹ نے کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی انتخابات کرانے یا نہ کرانے پر وزارت دفاع اور وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے 20فروری تک جواب طلب کرلیا تھا۔ سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی انتخابات کرانا حکومت کی آئینی وقانونی ذمہ داری ہے ، بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہ ہونا آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ تاخیر کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے ، محض قانون سازی کا بہانہ بنا کر آئینی تقاضے کو التواءمیں نہیں ڈالا جاسکتا ۔ اگر حکومت ترمیم نہیں کرسکتی تو ہم پرانے اور موجودہ قوانین کے تحت بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دے دیں گے اور جب ترمیم ہو جائے گی تو پھر اس ترمیم شدہ قانون کے تحت از سر نو انتخابات کرا دیں گے ۔ واضح رہے کہ مئی1998ءمیں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت میں بلدیاتی انتخابات کے ساتھ ہی کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات ہوئے تھے ۔ پرویز مشرف دور میں دوبار بلدیاتی انتخابات ہوئے لیکن کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کو ڈکٹیٹر نے درخوراعتنا نہیں جانا ۔ یہ امر پیش نظر رہے کہ بلدیاتی انتخابات جلد کرانے کے لیے 17 اکتوبر 2012ءکو عدالت عظمیٰ کی لاہور رجسٹری میں ایک متفرق درخواست دائر کی گئی تھی ۔ درخواست گزار کا مو¿قف تھا کہ بلدیاتی انتخابات نہ کرانا آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے ۔ یہ امر بھی افسوسناک ہے کہ فروری2008ءکے انتخابات کے قائم ہونے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں امن وامان کے خلاف صورتحال کو جواز بنا کر پورے آئینی دورانیہ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو سرد خانے کی نذر کیے رکھا ۔ بلدیاتی انتخابات اگست2009ءمیں ہوجانا چاہیے تھے جو ابھی تک نہیں ہوئے ، سوائے بلوچستان کے ۔ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کے بعد اب ناگزیر ہوچکا ہے کہ بلوچستان کے علاوہ باقی تینوں صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی حتمی تاریخ کا بھی اعلان کردیں تاکہ رائے دہندگان گو مگو اور تذبذب کے بھنور سے نکل سکیں ۔ سب تسلیم کرتے ہیں کہ آئین اور جمہوریت کے تحت بلدیاتی انتخابات کرانا منتخب جمہوری حکومت کے قومی فرائض میں سے ہے ۔ کیونکہ گلی محلے سے منتخب ہونے والے نمائندے ہی عوام کے براہ راست نمائندے ہوتے ہیں اور عام آدمی کے فوری مسائل پرائمری تعلیم، بنیادی طبی سہولیات ، گلیوں ، سڑکوں اور پارکوں کی تعمیر، ترقی اور تزئین ، نکاسی آب اور آب رسانی کے منصوبوں اور دیگر ترقیاتی امور سے بھی اہم ترین سماجی مسائل، عائلی تنازعات اور باہمی لین دین کے جھگڑوں کے حل کے لیے کسی ایک یونین کونسل کا منتخب نمائندہ چیئرمین ثالثی کونسل، چیئرمین مصالحتی عدالت اور جسٹس آف پیس کا کردار بھی ادا کرتا ہے ۔ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد اور نچلی ترین سطح پر عوام کو شراکت اقتدار کا احساس دلانا ہی حقیقی جمہوریت کا نصب العین ہے ۔ نچلی ترین سطح سے عوامی نمائندوں کی اٹھان جسد جمہوریت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہ امر پیش نظر رہے کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بلدیاتی الیکشن نہ کرا کر آئین کے آرٹیکل140کی خلاف ورزی کی ہے ۔ یہ اعزاز صرف صوبہ بلوچستان کی حکومت کو حاصل ہے کہ اس نے صوبے میں نامساعد حالات کے باوجود بلدیاتی انتخابات عدالت عظمیٰ کی دی گئی تاریخ کو منعقد کرائے اور جمہوریت کی جڑوں کو صوبے کی حد تک مضبوط بنانے کا وعدہ ایفا کیا۔ اصولی طور پر تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ وفاق کے باقی تین صوبوں میں صوبائی حکومتیں اور الیکشن کمیشن مطلوبہ اقدامات کر کے شفاف اور غیر جانبدارانہ انداز میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے بیانات واعلانات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سنجیدہ مساعی کو بروئے کار لاتے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کے مصداق یہ معاملہ تین صوبوں اور اسلام آباد کھٹائی میں پڑتا دکھائی دیتا ہے ۔ لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ 2009ءمیں مشرف دور میں بننے والے بلدیاتی اداروں کی دوسری انتخابی مدت ختم ہونے کے بعد سابق دور میں کسی بھی صوبائی حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے ۔ جمہوری نظام حکومت میں مقامی حکومتوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے لیکن سیاسی مصلحتوں کے تحت انہیںٹالا جاتا رہا حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے سخت حکم پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو کنٹونمنٹ بورڈز انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرنا پڑا ۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ صوبائی حکومتوں کی پالیسیوں اور دیگر مختلف عوامل سے جنم لینے والی پیچیدگیوں کے باعث مقررہ تاریخوں پر بلدیاتی انتخابات معرض التوا میں پڑتے رہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پنجاب، کے پی کے اور سندھ کی صوبائی حکومتیں اور اسلام آباد کی وفاقی حکومت عوامی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اقتدارکی نچلی سطح پر منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے اب بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی حتمی تاریخوں کا ایک بار پھر اعلان کرکے سپریم کورٹ کے احکامات پرعملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ جمہوریت کی کامیابی کے لیے بلدیاتی اداروں کا منتخب نمائندوں کے پاس ہونا ضروری ہے تاکہ جمہوری ادارے پھل پھول سکیں ۔