علامہ محمد اقبال کا یوم وصال اور مزار پر حاضری
آج اقبالؒ کا یوم وصال ہے۔ ا±ن کو یاد کرنے، ا±ن کی باتوں کو سمجھنے، فکر کو جاننے اور پلے باندھنے کا دن ہے۔ اقبال بیسویں صدی کے ہی نہیں ہر صدی کے شاعر ہیں۔ آج مسلمانوں کی جو حالت زار ہے یمن اور سعودی عرب کے ایشو کو لے لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے آج سے ستر، اسّی سال پہلے مسلم امہ کو جو سمجھایا، بتایا اور راستہ دکھایا تھا، اس کو چھوڑ دیا۔ آج بھی ہم وہیں کھڑے ہوئے ہیں نہ وہ مقام بدلا ہے نہ مسلمان۔ آپ کے عہد میں مشرق اور مغرب کی بحث عروج پر تھی۔ علامہ اقبالؒ نے جہاں مشرق کو بیداری اور خوداری کا پیغام دیا وہاں مغرب کو بھی حقوق آدم کی پاسداری کی تلقین کی۔ اقبال چاہتے تھے کہ کرة ارض کے یہ دونوں حصے انسانی زندگی کی فلاح و بہبود کیلئے ایک ہی وحدت کے طور پر کام کریں اور ان میں جہاں کہیں فساد ہو اسے روکا جائے۔
یومِ اقبال کی مناسبت سے انٹرنیشنل اقبال سوسائٹی نے اقبال اکیڈمی، ایوانِ اقبال، ایڈوینچرسٹ اور عادل لاہوری کلچرل کلب کے اشتراک سے ایک روزہ ” اقبال ڈے ٹرپ ” کے نام سے ایک معلوماتی و تفریحی پروگرام کا انعقاد کیا۔اِس پروگرام کا مقصد لوگوں کو ا±ن جگہوں جہاں علامہ اقبال نے وقت گزارا اور رہائش اختیار کی، سے متعارف کروانا تھا ساتھ ہی ساتھ کلامِ اقبال اور ذاتِ اقبال سے دلچسپی پیدا کرنا تھا۔پروگرام صبح 9 بجے ایوانِ اقبال سے شروع ہوا اور جاوید منزل، اقبال اکیڈمی میکلوڈ روڈ، مسجد شب بھر ، اندرون بھاٹی گیٹ کی رہائش سے ہوتا ہوا مزارِ اقبال پہنچا جہاں اقبال کے شاہینوں نے فاتح خوانی کی ، مزار اقبال سے اپنا اختتامی سفر طے کرتا ہوا یہ قافلہ ایوانِ اقبال واپس آیا جہاں اقبال اکیڈمی کی انتظامیہ نے قافلے کو خوش آمدید کیا اس محفل کی صدارت اقبال اکیڈمی کے نائب صدر جناب منیب اقبال نے کی۔مجھے خوشی ہے کہ میں اس کا حصہ بنا اور آئندہ خواہش رہے گی کہ ایسے پروگرامز میں شرکت کرتا رہوں۔چند ایسی چیزیں سامنے آئیں جس سے دل کو تکلیف بھی ہوئی جس میں سب سے اہم علامہ محمد اقبال ؒ کی وہ رہائش جہاں انہوں نے 1900سے 1905تک قیام کیا اس میں آجکل بیند باجے والوں نے اپنا دفتر بنایا ہوا ہے جو کہ ایک المیہ ہے ایسے مفکر اسلام کی رہائش گا ہ کی تعظیم ضروری ہے مگر دوسری طرف اگر دیکھوں تو ان لوگوں کی عقیدت اور احترام جو ان کی نظر میں علامہ ؒ کا ہے وہ بھی دیدنی ہے کہ انہوں نے آج تک اس کمرے کو ویسا رکھا ہوا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے ۔انٹرنیشنل اقبال سوسائٹی کے لوگ اس میں بہت کام کر رہے ہیں اور مجھے امید ہے کہ حکومت بھی ان کا ساتھ دے گی ۔کالجز یونیورسٹیز میں تو یہ لوگ کام کر رہے ہیں مگر اصل بات جو ہمارے کرنے کی ہے وہ ہے سکولز کے بچوں اور بچیوں کو اقبال کی سوچ کو منتقل کیا جانا یہی بچے اقبال کے شاہین ہیں اس لیے میں انٹرنیشنل اقبال سوسائٹی کی انتظامیہ اور نوجوانوں کو یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ سکولز لیول پر اپنا کام شروع کریں تا کہ ہماری نئی نسل کو اقبال ؒ کے افکار اور ان کی سوچ کے بارے میں بتایا جا سکے۔بہرحال نئی نسل کو مفکر پاکستان کے بارے میں کچھ پرانی باتیں ذہن نشین کرانے کی ضرورت بھی ہے۔علامہ اقبالؒ 9 نومبر 1877ءکو شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کے آباو¿ اجداد نقل مکانی کرکے کشمیر سے سیالکوٹ آ ئے تھے۔ 1897ءمیں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے پاس کیا۔ عربی اور انگریزی میں اول آنے پر آپ کو دو گولڈ میڈل ملے۔ عربی، فارسی، ادب اور اسلامیات کی تعلیم مولوی میر حسن سے حاصل کی۔ اورینٹل کالج سے فلسفہ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ یہاں سر ایڈون آرنلڈ کی شاگردی میں آپ نے جدید فکر کا مطالعہ کیا۔ 1905ءمیں یونیورسٹی آف کیمبرج میں لاءمیں داخلہ لیاپھر ہائیڈل برگ یونیورسٹی میونخ (جرمن) سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔
مفکرین اس بات سے متفق ہیں کہ اقبال کی شاعری کا آغاز اس وقت ہوگیا تھا جب وہ ابھی اسکول کے طالب علم تھے۔ اقبال کی شاعری کا چرچا بازار حکیماں تک محدود تھا پھر لاہور کے کالجوں کی ادبی مجالس سے ہوتا ہوا قومی سے عالمی سطح پر پھیل گیا۔
بحیثیت مفکر اور رہنما سیاستدان آپ کا سب سے بڑا کارنامہ ”نظریہ پاکستان“ کی تشکیل ہے جو آپ نے 29 دسمبر 1930ءکو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ آپ کا یہ خطاب پاکستان کے قیام کی پہلی اینٹ تھی۔ بلکہ میں یہاں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا پہلا نقشہ بھی انہیں نے بنایا تھا۔
اسرار خودی، رموزبیخودی، پیام مشرق، بانگ درا، زبور عجم، جاوید نامہ، بال جبرئیل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز جو آج بھی مقبول ہیں۔21اپریل 1938ءکو آپ کا انتقال ہوا۔