کلکتہ کے ہندو بنیا کی اولاد حسینہ واجد شرم تم کو مگر نہیں آتی
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ایک اور رہنما محمد قمر الزماں کو ہفتے کے روز پھانسی دے دی گئی۔انہیں 1971 ءمیں جنگی جرائم کے تحت پھانسی کی سزا سنائی گئی۔اس سزا پر عمل درآمد کرتے ہوئے بنگلہ دیشی وقت کے مطابق رات 10 بجے تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ قمر الزمان کو 13 جولائی 2010 ء میں گرفتار کیا گیا۔ بنگلہ دیش کی حکمران حسینہ واجد کی قائم کردہ انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل نے9مئی 2013ء کو جنگی جرائم، قتل و غارت، عصمت دری، لوٹ مار، آتش زنی کے الزامات لگاکر سزائے موت سنائی۔ قمر الزمان نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تاہم سہاگ پور میں 164 افراد کے قتل کے الزام میں ان کی سزائے موت بحال رکھی گئی۔8 اپریل 2015 ءکو جیل حکام کو پھانسی کے احکامات موصول ہوئے اور انہیں11 اپریل کو ڈھاکہ جیل میں پھانسی دی گئی۔ پھانسی کے اگلے روز ضلع شیر پور میں ان کی تدفین ہوئی۔واضح رہے 1971 ءکی جنگ میں جماعت اسلامی کے رہنما قمر الزمان پر پاکستان کی حمایت کرنے کا الزام تھا جبکہ اس سے قبل بھی جماعت اسلامی کے رہنماو¿ں کو اس جرم کی پاداش میں پھانسی دی جا چکی ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما اور پاکستان کے حامی قمر الزمان کی غائبانہ نماز جنازہ دنیا کے مختلف شہروں میں اتوار کے روز ادا کی گئی۔
یہاں ایک ایسی حقیقت بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں میں جب ساﺅتھ افریقہ گیا تو اس وقت مجھے بنگالی ورکرز کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ان میں ایک ایسے بزرگ بھی موجود تھے جن کی عمر 70سال تھی ان سے اکثر پاکستان اور بنگلادیش کی باتیں ہوا کرتی تھی ایک دن موڈ میں بیٹھے اس بزرگ نے حسینہ واجد کی ہسٹری بتانا شروع کی جس پر میں دنگ رہ گیا بات لمبی ہے مگر اشارہ تن بتانا ضروری ہے کہ شیخ مجیب کا والد حقیقت میں کلکتہ کا ایک ہندو تھا جبکہ اس کی ماں مسلمان گھرانے سے تعلق رکھتی تھی شیخ مجیب کی ولدیت اس کی پیدائش کے 3سال بعد بدلی گئی اس کا ریکارڈ آج بھی کلکتہ میں موجود ہے اس لیے یہاں حسینہ واجد کی اصلیت بتا رہا ہوں کہ وہ حقیقتاً ایک ہندو کی اولاد میں سے ہے اور اس جیسی خونخوار عورت سے مسلمانوں کو بھلائی کی بات نہیں مل سکتی۔
بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد کے دور میں 2008ءسے تادمِ تحریر بیسیوں شہریوں کو1970ءکی جنگ کے دوران افواج پاکستان کے ہراول دستے میں وحدت پاکستان کے لیے کردار ادا کرنے کے جرم کی پاداش میں جھوٹے الزامات کے تحت تختہ دار تک پہنچایا جا چکا ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنما قمر الزماں کا شمار بنگلہ دیش کے اہم سیاسی رہنماو¿ں میں ہوتا تھا۔ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت مخالف رہنماو¿ں کو دارو رسن کی آزمائشوں سے دو چار کرنا حسینہ واجد کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ اپوزیشن رہنماو¿ں کو جنگی جرائم کے لیے قائم کیے گئے غیر قانونی اور غیر معیاری ٹربیونل کا قیام عمل میں لا کر انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ جمہوریت کی اعلیٰ قدروں، رواداری، برداشت اور تحمل سے یکسر عاری ہیں۔ وہ منتقمانہ کارروائیوں کو آگے بڑھا کر صرف سیاسی کارکنوں ہی کو سولی نہیں دے رہیں بلکہ روحِ جمہوریت کو مصلوب کر رہی ہیں۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم کے اس اقدام کے خلاف اقوام متحدہ، دیگر بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کے لیے کام کرنے والے عالمی اداروں کی جانب سے سخت مذمتی الفاظ میں احتجاج کیاجا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حسینہ واجد اپنے فسطائی اقدامات کے خلاف ان عالمی اداروں کے احتجاج کو پر کاہ اتنی اہمیت بھی نہیں دے رہیں۔ یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ اقوام متحدہ اور پھانسی کی سزا دینے کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کرنے والا امریکہ اور مغرب بھی صرف خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ ا±ن کی مذمت محض زبانی جمع خرچ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔