ورلڈ کپ میں شکست، اعلیٰ سطح پر تحقیقات کی ضرورت
کرکٹ ورلڈ کپ کے تیسرے کوارٹر فائنل میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم آسٹریلیا سے شکست کھا کر ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئی۔ پوری قوم نے اپنی کرکٹ ٹیم سے بے پناہ امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ قومی کرکٹ ٹیم کی شرمناک شکست پر پوری قوم دکھی ہو گئی۔ کئی جگہ پر شائقین کرکٹ نے ٹیم کی شکست پر احتجاج کرتے ہوئے مظاہرے بھی کیے۔ 14 فروری کو ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل ہی پاکستان ٹیم کی سلیکشن پرکرکٹ مبصرین کو بہت سے اعتراضات تھے۔ اس وقت اکثر مبصرین، سابقہ ٹیسٹ کرکٹروں اور ماہرین نے ٹیم انتظامیہ، کرکٹ بورڈ اور سلیکشن کمیٹی پر الزامات یا اعتراضات کی بھرمار سے یہ کہہ کر اعتراض کیا کہ اس وقت اعتراضات کرنے سے نہ تو ٹیم کو فائدہ ہو گا نہ ہی کرکٹ کو۔ ماہرین اور سابق کرکٹرز نے اس وقت کہا کہ ہم ٹیم کے مورال کو بلند رکھنے کے لیے اپنے تحفظات اب میڈیا پر نہیں لائیں گے۔ ورلڈ کپ سے قبل ٹیم نے دبئی میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ سیریز کھیلیں۔ ان میں پاکستان نے آسٹریلیا کو ٹیسٹ سیریز میں خاصا پریشان کیا مگر ایک روزہ میچوں میں ٹیم کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں تھی۔ ان سیریز کے بعد ورلڈ کپ کے لیے پاکستانی ٹیم کا اعلان کیا گیا جس پر بعض ماہرین اور تجزیہ کاروں کے شدید تحفظات تھے تاہم ماہرین نے ٹیم کی بہتری کی خاطر بیان بازی اور میڈیا پر گفتگو سے گریز کیا۔ ٹیم نیوزی لینڈ پہنچی اور پری ورلڈ کپ متعدد میچ کھیلے جن میں ٹیم کی کارکردگی اوسط درجے سے بھی کم تھی۔ ورلڈ کپ شروع ہوا تو بھارت نے پہلے ہی میچ میں پاکستان کی ٹیم کو 76 رنز سے شکست دے دی۔ پاکستان کی اس پورے میچ کے دوران ایک بار بھی بھارت پر برتری دکھائی نہ دی۔ بھارت نے پہلے کھیلتے ہوئے 300 رنز سکور بورڈ پر ٹانگ دیئے جبکہ ہماری بیٹنگ اننگز کے شروع ہی سے لڑکھڑاتی رہی۔ دوسرا میچ ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلا گیا۔ یہ میچ ویسٹ انڈیز نے 150 رنز کے بڑے مارجن سے جیت لیا۔ ویسٹ انڈیز نے 310 رنز بنائے جواب میں پاکستان کے 4 کھلاڑی صرف ایک سکور پر پویلین لوٹ چکے تھے۔ اس میچ میں بھی ٹیم کی بیٹنگ اور فیلڈنگ کی خامیاں اور کیچ ڈراپ کرنا شکست کی نمایاں وجہ رہے۔ مسلسل دو شکستوں پر پورے ملک میں کرکٹ ٹیم پر سخت تنقید کی گئی۔ ٹیم میں مستند وکٹ کیپر سرفراز احمد کو شامل نہ کرنے پر ٹیم مینجمنٹ کوئی وضاحت دینے میں ناکام رہی۔ ٹیم کے ہیڈ کوچ وقار یونس نے کہا کہ سرفراز کی بیٹنگ ٹیکنیک درست نہیں۔ گروپ کا اگلا میچ زمبابوے جیسی کمزور ٹیم سے تھا وہ میچ پاکستان کی ٹیم صرف 20 رنز کے فرق سے جیت سکی۔ اس میچ میں بھی فیلڈنگ کی خرابیاں اور تھیں کیچ ڈراپ ہوئے تاہم پاکستانی باو¿لروں کی اعلیٰ کارکردگی نے ٹیم کی فتح میں بنیادی کردار ادا کیا۔ پاکستان نے متحدہ عرب امارات کی کمزور اور نو آموز ٹیم کو 129رنز سے شکست دی جس پر پاکستانی قوم نے سکھ کا سانس لیا، 29 مارچ کو قومی کرکٹ ٹیم نے جنوبی افریقہ کو دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلے کے بعد 29 رنز سے ہرا دیا۔ اس میچ میں سرفراز احمد کو کھلایا گیا جنہوں نے بطور اوپنر 49 رنز بنائے اور وکٹ کے پیچھے چھ کھلاڑیوں کو کیچ آو¿ٹ کر کے مین آف دی میچ کا اعزاز جیتا اور اپنی عدم شمولیت کے ذمہ داروں کے منہ بند کر دیئے۔ پاکستان نے گروپ میں آخری میچ آئر لینڈ کے خلاف کھیلا اس میچ میں بھی سرفراز احمد نے 2007ءکے ورلڈ کپ کے بعد پہلی مرتبہ کسی پاکستانی کھلاڑی کی طرف سے ورلڈ کپ میں سنچری بنائی اور پاکستان نے آئر لینڈ کو شکست دے کر کوارٹر فائنل کے لیے کوالیفائی کر لیا۔ اس میچ میں بھی سرفراز احمد مین آف میچ رہے۔ کوارٹر فائنل میں پاکستان نے آسٹریلیا کے مقابلے میں شکست کھائی پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 213 رنز بنائے ٹیم کا کوئی کھلاڑی جم کر نہ کھیل سکا اور ٹیم کے دس کے دس کھلاڑی کیچ آو¿ٹ ہوئے۔ اس میں اہم ترین بلے باز غلط شارٹ کھیلتے ہوئے آو¿ٹ ہوئے۔ باو¿لنگ میں وہاب ریاض نے زبردست باو¿لنگ کی مگر ڈراپ کیچز نے اس میچ میں بھی پاکستان کو کھیل کے تمام شعبوں سے آو¿ٹ کر کے ٹورنامنٹ سے باہر کر دیا۔ کرکٹ بورڈ کے پیٹرن انچیف وزیراعظم پاکستان کو اس ٹورنامنٹ میں ٹیم کی کارکردگی پر اعلیٰ عدلیہ کے جج کی سربراہی میں کمیشن بنا کر ٹیم کے معاملات،شکست کی وجوہات، کرکٹ بورڈ کی کارگزاری اور ٹیم مینجمنٹ کی کارکردگی پر جامع تحقیقات کرا کر ذمہ داران کا تعین کر کے کرکٹ بورڈ کے معاملات میں فوری طور پر مداخلت کر کے درست کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ٹیم میں گروپ بندی، کھلاڑیوں کی سیاست بازی اور ٹیم مینجمنٹ اور کھلاڑیوں کے تعلقات میں بگاڑ سمیت ٹیم کے ارکان کے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں معاملات کا بھی جائزہ لیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ کرکٹ بورڈ کے معاملات کی الگ سے بھی تحقیقات کرائی جائے تا کہ کرکٹ کے معاملات میں بہتری آ سکے کیونکہ قوم اس طرح کی ذلت آمیز شکست اور صورت حال کو برداشت نہیں کرے گی۔