Tayyab Mumtaz

بھارت کا جھوٹا چہرہ بے نقاب

بھارتی میڈیا نے خود ہی بھارت کابھیانک چہرہ اور اس کا جھوٹ بے نقاب کر دیا ہے۔ بھارتی کوسٹ گارڈز کے ایک سینئر افسر نے پاکستانی کشتی کو تباہ کرنے کا اعتراف کیامگر میڈیا پر شور مچنے اور اعلیٰ سطح پر کھنچائی ہونے پر خود ہی مکر گیا۔ بھارتی کوسٹ گارڈ کے نائب انسپکٹر جنرل اور شمال مغربی خطے کے چیف آف سٹاف بی کے لوشالی کی ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں انہیں یہ دعویٰ کرتے دیکھا جا سکتا ہے کہ 31 دسمبر کی رات مبینہ طور پر پاکستان کی طرف سے بھارتی سمندری حدود میں داخل ہونے والی کشتی کو ’اڑانے کا حکم‘ خود انہوں نے دیا تھا۔ویڈیو میں انہیں یہ کہتے ہوئے صاف سنا جا سکتا ہے کہ ’مجھے امید ہے کہ آپ کو 31 دسمبر کی رات یاد ہوگی۔ میں وہاں موجود تھا، میں نے اس کشتی کو اڑانے کا حکم دیا تھا۔ میں نے کہا کشتی کو اڑا دو، ہم انہیں بریانی نہیں کھلانا چاہتے۔
اس وقت بھارتی حکومت نے کہا تھا کہ یہ واقعہ بحیرہ عرب میں مغربی بھارت کے ساحل سے 365 میل دور پیش آیا ہے۔ بھارتی کوسٹ گارڈز کے ترجمان اجے کمار نے بتایا تھا، ”اس کشتی کا تقریباً ایک گھنٹے تک پیچھا کیا گیا۔ اس دوران انتباہ کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔ اس کے باوجود یہ کشتی سمندر میں آگے ہی بڑھتی رہی۔ تھوڑی ہی دیر بعد یہ کشتی اچانک رک گئی اور اس میں سوار افراد کشتی میں آگ لگا کر عرشے کے نیچے چھپ گئے۔ اس کے بعد ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا اور ساتھ ہی یہ کشتی سمندر میں غرق ہو گئی۔“ بھارتی حکومت نے کہا تھا کہ اس پر سوار افراد کی لاشیں بھی نہیں ملیں۔اس واقعے کے بعد وزارتِ دفاع نے دعویٰ کیا تھا کہ کشتی پر دہشت گرد سوار تھے، اس میں دھماکہ خیز مواد لدا ہوا تھا جب کوسٹ گارڈز نے کشتی کو تلاشی کے لئے روکنے کی کوشش کی تو اس میں سوار افرد نے اس میں آگ لگا دی تھی۔ کوسٹ گارڈ کے افسر کے بیان کے بعد وزیر دفاع موہن پریکر نے بنگلور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اپنے موقف پر قائم ہیں، اگر کسی افسر نے کوئی غلط بیان دیا ہے تو انکوائری کے بعد اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔
انڈین ایکسپریس نے حکومت کے مو¿قف پر سوال اٹھاتے ہوئے 2 جنوری کو ہی یہ کہہ دیا تھا کہ اس کشتی میں معمولی سمگلرز سوار تھے۔ پاکستان نے بھی اس دعوے کو مسترد کیا تھا کہ کشتی اس کے کسی ساحل سے روانہ ہوئی تھی۔ بعد میں وزیر دفاع نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ کشتی میں ’مشتبہ‘ دہشت گرد سوار تھے اور اگر وہ معمولی سمگلرز ہوتے تو ’خود کشی‘ کیوں کرتے۔ مگر کوشالی کا دعویٰ وزارت دفاع کے موقف سے متضاد ہے اس کے بعد کانگریس کے سینئر لیڈر منیش تیواری نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے وہ بتائے کہ اس رات کیا ہوا تھا۔ کشتی کن حالات میں تباہ ہوئی، اس پر سوار لوگ کون تھے؟ بھارتی انٹیلی جنس سے کیا معلومات حاصل ہوئیں خود بحریہ اس آپریشن میں کیوں شامل نہیں تھی، کشتی کو بیچ سمندر میں ہی کیوں روکنے کی کوشش کی گئی۔ ایسے بہت سے سوال میڈیا میں اٹھائے گئے تھے لیکن حکومت کی جانب سے کوئی واضح جواب نہیں دیا گیا تھا۔ وزارت دفاع کے مطابق اس کشتی میں چار افراد سوار تھے جنہیں بچایا نہیں جا سکا کیونکہ آگ لگائے جانے کے کچھ دیر بعد دھماکہ ہوا اور کشتی غرقاب ہو گئی۔ کوسٹ گارڈ کی جانب سے جلتی ہوئی کشتی کی تصاویر جاری کی گئی تھیں۔
بھارتی حکومت اس حوالے سے وضاحت کرنے کے بارے میں شدید دباو¿ کا شکار ہے کہ پاکستانی کشتی کی تباہی کو تباہ کرنے کا سبب کیا تھا۔ انڈین ایکسپریس کی جانب سے ویڈیو جاری ہونے پر اپوزیشن نے اس بارے میں حکومت سے وضاحت طلب کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وزیر دفاع منوہر پاریکار اس بات کی تصدیق کریں کہ گزشتہ سال تباہ کی جانے والی پاکستانی کشتی میں سوار افراد دہشت گرد تھے یا نہیں۔ اگر کشتی میں سوار افراد دہشت گرد تھے تو یقیناًیہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ ان افراد کے دہشت گرد ہونے کی صورت میں بھی ہمیں اپنی پوزیشن واضح کرنا ہوگی کہ آخر کیا وجہ تھی کہ ہم ان دہشت گردوں کو موقع پر ہلاک نہیں کرپائے؟۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھارتی اعلیٰ عہدیدار کی طرف سے ایک کشتی کو پاکستانی دہشت گردوں کی کشتی قرار دینے کی سازش کا بھانڈا پھوڑنے پر کہا کہ ایک بار پھر ثابت ہو گیا ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف بے سروپا الزام تراشی میں کسی بھی حد سے گزر سکتا ہے۔ یہ ثابت ہو گیا کہ کشتی سواروں نے خودکشتی تباہ نہیں کی۔ بھارتیوں نے بیدردی سے ایک کشتی پر بے چارے گناہوں کی جان لے لی اور اس واقعہ کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی بھی کوشش کی جو بھارت کے ان دعوو¿ں کی قلعی کھولنے کیلئے کافی کہ وہ پرامن ملک ہے۔ بھارت اس واقعہ میں ملوث ہونے کے علاوہ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس جیسے المناک سانحات میں بھی ملوث ہے مگر الزام تراشی پاکستان کے خلاف کرتا ہے۔ پاکستان امن کا متمنی ہے مگر امن کیلئے پاکستان کی خواہش کو اس کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔ کشتی تباہ کرنے کے واقعہ سے بھارت کہ اصلی چہرہ بے نقاب ہو گیا ہے۔
بھارت نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی عالمی قوانین کی نہ صرف خلاف ورزی کی اور چار بے گناہ شہریوں کی جان بھی لے لی۔ بھارت نے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا دیں اور ایک بار پھر اپنا مکروہ چہرہ دکھا دیا۔ ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے کہ بھارت کو بین الاقوامی قوانین کی پرواہ نہیں، لوشان کا بیان بھارتی حکومت کے موقف کے برعکس ہے۔ بھارت اس طرح پہلی بار نہیں بلکہ ہمیشہ ایسی حرکات کرتا رہتا ہے۔لہٰذاعالمی برادری سے مطالبہ ہے کہ وہ بھارت کے اس طرزعمل کا نوٹس لے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button