پی ٹی آئی کے پلان سی کو 2 لاشیں مل گئیں

صوبائی دارالحکومت میں گزشتہ چند روز کی خبرو ںکے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں گورننس نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے ، ہر کوئی اپنی مرضی ومنشا کے مطابق زندگی گزارنے میں مگن ہے ۔ کوئی قانون ہے اور نہ ہی انسانی قدرو ںکا لحاظ ہے ۔ پنجاب پولیس تو پہلے ہی سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے دبنگ کردار کی و جہ سے بدنام تو ہے ہی اب سرکاری اداروں میں بھی کوئی والی وارث نہیں رہا۔ بیورو کریسی بے لگام ہوچکی ہے ، عوامی مسائل بڑھتے بڑھتے خوفناک اژدھے کی شکل اختیار کرچکے ہیں جنہیں حل کرنے کے لیے کوئی حکمت عملی ہے اور نہ ہی حکومت کو سیاسی بحرانوں سے نکلنے کا وقت ملتا ہے ۔ وزراءاور حکومتی ارکان اپوزیشن کی بے مقصد اور لاحاصل تقاریر کا جواب دینے کی بجائے اپنی توانائیوں میں سے چند توانائیاں عوامی مسائل کے حل پر لگا دیں تو عوام کے بنیادی مسائل حل ہوسکتے ہیں مگر حالت یہ ہے کہ ہسپتالوں میں علاج ومعالجہ کی سہولتیں نہ ہونے کا ہمیشہ سے رونا رویا جاتا ہے اب انتہا یہ ہے کہ تھیلیسمیا کے شکار موت سے لڑتے معصوم بچوں کو ایڈز اور ہیپا ٹائٹس کے مریضوں کا خون لگایا جارہا ہے اور یہ کام شہر لاہور کے بڑے ہسپتال میں ہوا ہے ۔ شہری وترقیاتی اداروں کی بے حسی ، غفلت اور لا پرواہی کی حد یہ ہے کہ کھلے مین ہول کی موت کے کنوﺅں میں تبدیل ہوچکے ہیں ۔انصاف کی حالت یہ ہے کہ احتجاج کرنے اور سڑکوں پر آئے بغیر کسی کو انصاف نہیں ملتا ۔ کاہنہ کے علاقے میں ایک پانچ سالہ بچی عائشہ گھر سے باہر کھیل رہی تھی کہ پاﺅں پھسلنے سے کھلے مین ہول میں گر گئی ۔ گھر والے تلاش کرتے رہے بچی موت کے کنوئیں میں زندگی اور موت سے لڑتی رہی ، آخر کار معصوم کی آواز آنا بند ہو گئی ۔ بچی کے ورثاءنے انصاف کے لیے سڑکوں کا انتخاب کیا ۔ لاش سڑک پر رکھ کر احتجاجی مظاہرہ کیا، وزیراعلیٰ اور اعلی حکام کو احساس ہوا تو متعلقہ حکام کو معطل کیاگیا ۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ کافی عرصے سے متعلقہ محکمے کے افسران کو درخواستیں دی گئیں ، مقامی سیاسی قیادت کو شکایت کی مگر مین ہول پرڈھکن نہ لگ سکے ۔ بچی کی موت سے گٹر پر ڈھکن شاید اب لگ جائے مگر انسانی زندگی معطلیوں اور مقدمات سے واپس نہیں مل سکتی ۔ اطلاعات ہیں کہ ایک سال میں کھلے مین ہولز 47ماﺅں کی گود اجاڑ چکےح ہیں کسی ایک ذمہ دار کے خلاف محکمہ کارروائی تو ضرور ہوئی مگر سزا اب تک کسی کو نہیں ملی، ہر حادثے کے بعد مین ہول کے اندر جالی لگانے کی تجویز دی جاتی ہے مگر اب تک عملدرآمد نہیں ہوسکا ۔ لاہور کے ایک سرکاری ہسپتال گنگا رام میں تھیلیسمیا کے مریض بچوں میں ایڈز کا انکشاف ہونے پر معلوم ہوا ہے کہ کافی عرصے سے تھیلیسمیا کے مریض بچوں کو ایڈز اور ہیپا ٹائٹس کے مریضوں کا خون لگایا جارہا تھا۔ وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ تھیلیسمیا کے مریضوں کے لیے کوئی سرکاری سنٹر ہی موجود نہیں ۔ این جی اوز کے تحت سنٹر کام کررہے ہیں ۔ اور سکریننگ کا کوئی نظام ہی نہیں جس کی وجہ سے غیر معیاری تشخیص ہوتی ہے ۔ حکومت کے نوٹس پر چار رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے جس کی رپورٹ کے بعد شاید ہی کوئی ایکشن ہوسکے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں تاخیر کرنے اور کمیٹی کی رپورٹ کا انتظار کرنے کی بجائے ہر ضلع میں ایک سرکاری سطح پر سنٹر قائم کرے تاکہ تھیلیسیما کے مریضوں کا مناسب علاج ہوسکے اور سکریننگ کا نظام بہتر بنایا جاسکے ۔ لاہورمیں نابیناﺅں پرپولیس تشدد بھی معاشرے اور خصوصاً پولیس کے ماتھے پر ایک اور بدنما داغ ہے ۔ سفید چھڑیاں پکڑے نابیناﺅں نے اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کررہے تھے اور وزیراعلیٰ ہاﺅ س جاکر اپنی بپتا خادم اعلیٰ کو سنانا چاہتے تھے مگر پولیس کو یہ منظورنہیں تھا ۔سنا ہے کہ اس سڑک پر روٹ لگا ہوا تھا اور صدر مملکت کی شاہی سواری کے گزرنے کا وقت تھا جس کی وجہ سے ضمیر کی اندھی پولیس نے نابیناﺅں پر دھاوا بول دیا ، دھکے دیے ، ٹھڈے مارے اور بال نوچے، حد یہ ہے کہ بینائی سے محروم مظاہرین پر لاٹھی چارج بھی کردیا ۔ نابیناﺅں کا مطالبہ تھا کہ انہیں کوٹے کے بعد سرکاری ملازمتیں دی جائیں ۔ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں 95اسامیاں خالی ہیں مگر اب بھی بھرتی کی جاتی ہے تو بااثر افراد کی سفارش پر بھرتی کی جاتی ہے اور نابیناﺅں کو حق کے باوجود حق سے محروم رکھا جارہا ہے۔ خادم اعلیٰ پنجاب نے نابیناﺅں پر پولیس گردی پر معذرت تو کرلی ہے مگر پولیس پر لگے دھبوں میں سے ایک اور دھبہ برسوں زیر بحث رہے گا ۔ فیصل آباد میں تحریک انصاف کے پلان سی کو2لاشیں مل گئی ہیں ۔ ایک کارکن کی ہلاکت کا الزام سابق صوبائی وزیر رانا ثناءاللہ کے قریبی عزیز کے گارڈ پر لگایا جارہا ہے اور دوسرا کارکن تصادم کی نظر ہوا ہے ۔ پلان سی کامیاب ہوا یا ناکام ایک بحث ہے جو چند روز جاری رہے گی مگر پلان سی میں ہونے والی ہلاکتوں کاذمہ دار کون ہے ؟ اطلاعات ہیں کہ تحریک انصاف میاں شہباز شریف اور رانا ثناءاللہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کررہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے ہلاک ہونے والوں کو انصاف مل گیا ہے ۔