دسمبر کو ایک اور نیا پاکستان؟
ان دنوں ملک میں ایک نیا پاکستان بنانے کی نعرہ لگ رہا ہے۔ تحریک انصاف تواتر کے ساتھ جلسے کر رہی ہے ، حکومت کو الٹی میٹم دیے جارہے ہیں۔ شیخ رشید جلاو¿ گھیراو¿ کی بات کر رہے ہیں۔ سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا تحریک انصاف کے جلسوں اور دھرنوں میں ہوتا ہے۔ دما دم مست قلندر۔ بنے گا نیا پاکستان۔ اج عمران خان دے جلسے وچ نچنے نو ں جی کر دا ایہہ۔حکومت کے رہنما بلندآہنگ کے ساتھ اس جلسے کی ناکامی کا اعلان کر رہے ہیں۔یہ تو بہرحال ماننا پڑے گا کہ عمران خان نے اپنی پارٹی کو ملک بھر میں متحرک کر دیا ہے۔ان حالات میں حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کی کسی تجویز پر غورکرنے کے لیے تیا رنہیں ہے۔ پلان سی کے تحت عمران خان نے لاہور ، فیصل آباد اور کراچی کو بند کرنے کا اعلان کیا اور آخر میں کہا کہ 16دسمبر کو وہ پورا پاکستان بند کر دیں گے اور اس کے بعد پلان ڈی آئے گا جس کے سامنے حکومت نہیں ٹھہر سکے گی۔لگ یہی رہا ہے کہ یہ دو بڑی جماعتوں کی جنگ ہے اور دونوں جماعتیں عوامی سطح پر حمایت حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔میاں نوازشریف نے ایک روز قبل ہی حویلیاں موٹر وے کا افتتاح کرتے ہوئے ملک بھر میں پٹرولیم کی مصنوعات کو کم کرنے کا اعلان کر دیا تھا جس کے تحت ملک بھر میں پٹرول دس روپے لٹر سستا ہو گیا۔ شہباز شریف کی لیپ ٹاپ سکیم کا دائرہ کار میٹرک کے طلباءتک پھیل گیا ہے اور ماہرین تعلیم سوال کر رہے ہیں کہ کیا ایک استاد کو لیپ ٹاپ کی زیادہ ضرورت ہے یا میٹرک کے ایک طالب علم کو۔آخر ایف اے اور ایف ایس سی کرنے والے نے لیپ ٹاپ کے ذریعے کون سی تحقیق کرنی ہے ،بعض اس اقدام کے حوالے سے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ملک میں ترکی ماڈل لانے کی تیاری پر عمل ہو رہا ہے اور لیپ ٹاپ اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ایک اور دوست نے کہا کہ تحریک انصاف حکومت پر اسی طرح دباو¿ بڑھاتی جائے تو عوام کو شاید کچھ مل جائے ورنہ عوام کو اب تک کوئی ریلیف حکومت نہیں دے سکی ہے۔ گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ اسی طرح جاری ہے، مہنگائی ہے کہ قابو میں نہیں آ رہی۔
16دسمبر 1971ءکو مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا تھا اور ہم نے باقی ماندہ حصے کو نئے پاکستان کے طور پر قبول کر لیا۔یہ علیحدگی کیوں ہوئی اس پر آج تک کسی نے توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔کچھ تاریخ دان یہ بھی کہتے ہیں کہ 1970میں ہونے والے انتخابات شفاف ترین تھے لیکن اس وقت کیا ہوا؟ جس کو عوام نے مینڈیٹ دیا مغربی پاکستان کے سیاستدانوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ مجیب الرحمن کو ہم سے الگ ہونا پڑا۔ ہمارے سیاستدانوں نے بہت کوشش کی کہ شیخ مجیب الرحمن کو اپنے ایجنڈے کے مطابق ڈپٹی وزیراعظم کے لیے راضی کر لیا جائے مگر انہوں نے کہا کہ مجھے عوام نے حکومت کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے اور میں حکومت بنانے سے کم پرسمجھوتہ نہیں کروں گا۔وہاں تحریک چلی اور بالآخربنگلہ دیش کے قیام پرجا کر ختم ہوئی۔ 1971ء سے لے کر اب تک ہم نے یہ سبق نہیں سیکھا کہ عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے۔سیاست دان ہوں یا پاکستان کے مقتدر ادارے انہوں نے اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کے لیے ہر جائز اور ناجائز اقدام سے گریزنہیں کیا۔اقتدار کے حصول کے لیے نقب لگانے کو چوری نہیں بلکہ سینہ زوری کہا گیا اور ملک کے اندر کئی خاندان زیرو سے ارب پتی بن گئے۔کسی کا کوئی احتساب نہیں ہوا۔انصاف صرف امیر کے لیے رہ گیا اور غریب کی نسلیں انصاف کے حصول کے لیے عدل کی راہداریوں میں دربدر ہو گئیں۔
عمران خان کے سیاسی ایجنڈے سے اختلاف سہی مگر کیا ملک کے اندر کوئی ایسا میکنزم موجودہے جس کے تحت عوام کے حق رائے دہی کوصاف اور شفاف اندازمیں جانچا جا سکے۔ عمران خان نے اگر اس آواز کو بلند کیا ہے تو اسے موقع غنیمت جان کر ایسا میکنز م بنانے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔اور عمران کو بھی چاہئے کہ سسٹم کا حصہ رہ کر سسٹم کو تبدیل کرے نہ کے سڑکوں پر آ کر ٹائم اور قوم کا پیسہ ضائع کرے ۔نیا کے پی کے ، نیا پاکستان ، نیا پنجاب ، نیا سندھ، نیا بلوچستان سب کچھ ہی نیا ہے مگر چہرے وہی پرانے ہیں۔الیکشن جیتنے کے لیے ہر حربہ آزمانے اور بدمعاشی کرنے کے لیے پوری طرح تیار۔عمران خان ہو یا نوازشریف سب کے سب اسی نظام کا حصہ ہیں۔16دسمبر کو پاکستان کو بند کیا جاتا ہے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ عمران خان نے تو ببانگ دہل کہہ دیا ہے کہ نوازشریف میں تمہیں اب چلنے نہیں دوں گا اور 2015 ءمیں نیا پاکستان بنا کر دم لوں گا۔میاں نوازشریف اور ان کے خاندان کو چاہیے کہ وہ عوام کے لیے کچھ کرنے کی کوشش کر یں اور محض اپنے اقتدا رکو دوام بخشنے کے اقدامات نہ کریں۔ لیپ ٹاپ کی تقسیم ، شاہراو¿ں کی تعمیر سے عوام میں پائی جانے والی غربت کم نہیں ہو گی۔ مہنگائی کا جن قابو کرنے کی کوشش کریں۔ کیا وجہ ہے کہ ایک ماہ میں تیل کی قیمت 20روپے لٹر کم ہوئی ہے مگر آٹے ، چاول، گھی سمیت اشیائے صرف کی قیمتو ں میں رتی برابر کم نہیں ہوئی۔