سانحہ واہگہ بارڈر بیرونی ہاتھ کام کر گیا
لاہور میں واہگہ بارڈر پر خود کش دھماکے میں تین رینجرز اہلکاروں سمیت60 افراد شہید اور 175سے زائد زخمی ہو گئے، شہداءمیں ایک خاندان کے 8 اور دوسرے کے5 افراد، 12خواتین اور7بچے بھی شامل ہیں ، واہگہ بارڈر پر پریڈ اور پرچم ا±تارنے کی تقریب کے بعد بڑی تعداد میں لوگ واپس جا رہے تھے کہ 20سالہ بمبار نے ہجوم میں گھس کر خود کو ا±ڑا لیا۔ عینی شاہدین کے مطابق ’دھماکا اس قدر شدید تھا کہ اس کی آواز کئی کلو میٹر دور تک سنی گئی دھماکہ ہوتے ہی زمین لرز گئی اور دھماکے کی شدت سے کانوں کے پردے شل ہو گئے، دھماکے کے بعد شعلے ا±ٹھے جس کے بعد انھوں نے لاشیں دیکھیں‘۔ دھماکے سے انسانی اعضاءبکھر گئے، بھگدڑ اور چیخ و پکار مچ گئی، شہری اپنے پیاروں کو ڈھونڈتے رہے‘۔ خود کش حملہ اس جگہ کیا گیا جہاں رینجرز اہلکار کھڑے تھے، دھماکے سے مارکیٹ کی کئی دکانوں میں آگ لگ گئی جبکہ واہگہ بارڈر چیک پوسٹ اور کسٹمز عمارت کو نقصان پہنچا۔ بتایا جا رہا ہے کہ خود کش دھماکے کیلئے 10 سے 15کلو سے زائد بارودی مواد اور بال بیرنگ استعمال کئے گئے۔ دھماکے کے بعد رینجرز اہلکاروں نے تمام علاقے کو سیل کر کے سرچ آپریشن کیا۔
واہگہ بارڈر پر پریڈ کے بعد ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد ملک بھر کی فضاءسوگوار اور ماحول ملول و افسردہ ہے۔ لاہور لہو رنگ ہے اور بیسیوں گھروں میں صف ماتم بچھی ہے۔ شہداءاور زخمیوں کے گھروں میں قیامت صغریٰ بپا ہے اور ہر محب وطن شہری اشک بار ہے۔ ان کا ہر اشک سکیورٹی صورت حال اور انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی بارے کئی سوال اٹھا رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ قیمتی انسانی جانوں سے محرومی کے افسوس ناک اور دلخراش سانحے نے حکومت کے فول پروف سکیورٹی انتظامات کے تمام دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جہاں تک لاہور میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں ہلاکتوں کی تعداد کا تعلق ہے تو سانحہ واہگہ یکم جنوری 2009ءکے بعد سب سے بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ اس سے قبل یکم ستمبر 2010ءکو عزاداروں کے جلوس پر ہونے والے تین بم حملوں میں 30 افراد جاں بحق اور 250کے قریب زخمی ہوئے تھے جبکہ یکم جولائی 2010ءکو داتادربار پر ہونے والے بم دھماکے میں 42 افراد جاں بحق اور180زخمی ہوگئے تھے اور12 مارچ 2010ءکو لاہور میں یکے بعد دیگر ہونے والے دو بم دھماکوں میں 45 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں9فوجی بھی شامل تھے۔اس کے علاوہ بھی چند دھماکوں میں ہلاکتیں ہوئیں لیکن ان میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد کم رہی تھی۔ادھروزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے میڈیا کو جاری ایک بیان میں کہا کہ واہگہ بارڈر پر ہونے والے خود کش حملے سے متعلق پہلے سے ہی حکومت پنجاب کو آگاہ کیا گیا تھا مگر اس ابتدائی وارننگ کے باوجود خود کش حملہ آور کو روکنے کے انتظامات نہ کئے جانا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے، وزاردت داخلہ کی طرف سے معلومات دینے کے باوجود حفاظتی اقدامات نہ کرنے کی تحقیقات کریں گے، اتنابڑا سکیورٹی لیپس کیوں ہوا ،اس کی تہہ تک جا ئیں گے‘۔ ڈائریکٹر جنرل پنجاب رینجرزکی یہ گفتگو چشم کشا ہے کہ ’سخت سکیورٹی کے باعث حملہ آور پریڈ ایونیو میں داخل نہ ہوسکا، اگر ایسا ہوجاتا تو اس سے بھی بڑا نقصان ہوتا، اس خود کش حملہ میں رینجرز کے تین جوان شہید جبکہ پانچ زخمی ہوئے ہیں، دھماکے میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا‘۔
ہر شہری کو یہی بتایا جاتا ہے کہ محرم الحرام میں سکیورٹی ہائی الرٹ ہوتی ہے اور انٹیلی جنس ادارے اعلیٰ درجہ کے تحرک اور فعالیت کا مظاہرہ کرنے کے لئے مستعد ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اور حساس اداروں کی چوکسی کے باوجود ایک مبینہ 19 یا 20سالہ خود کش بمبار 4 چیک پوسٹوں سے انتہائی سخت سکیورٹی ماحول میں بخیر و خوبی نکلنے میں کیسے کامیاب ہوا۔
عسکری امور کے ماہرین کی رائے ہے کہ ’ نسبتاً آسان ٹارگٹ کو چھوڑ کر ایک انتہائی مشکل ٹارگٹ پر خودکش حملہ انتہائی خطرناک سمت کی جانب اشارہ کر رہا ہے، آپریشن ضرب عضب اور طالبان میں پھوٹ کے بعد یہ خیال کیا جا رہا تھا دہشت گردوں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم ناکارہ ہو چکا ہے اور وہ اب بڑی کارروائیاں کرنے کے قابل نہیں رہے اور ان کا بہت بڑا حصہ افغانستان جا بیٹھا ہے، پاکستان میں ان کے کئی اہم ٹھکانے تباہ ہو چکے ہیں، طالبان کی معدوم پڑتی کارروائیوں سے اس امر کی تصدیق بھی ہو رہی تھی ‘۔اس کا واضح مطلب ہے کہ یہ خونیں کھیل پاکستان دشمن عالمی قوتوں کے گماشتے کھیل رہے ہیں۔ تحقیقاتی اداروں کو اپنی تفتیش اور کھوج کی پرکار کواس دائرے کے قطر میں بھی گردش دینا چاہیے۔ سیاسی مبصرین کے اس خیال سے صرف نظر نہیں کیا جانا چاہیے کہ ’ پاکستان نائن الیون کے بعد جس گریٹ گیم کا شکار ہو گیا تھا وہ ختم نہیں ہوئی بلکہ اس نے اپنا حلیہ تبدیل کر لیا ہے اور اب وہ زیادہ خطرناک انداز اختیار کرتی جا رہی ہے اس کا مقصد مشرق وسطیٰ، پاکستان اور قریبی مسلم ممالک کو ایک ایسی جنگ میں مبتلا کرنا ہے جس کے باعث وہ اپنی بقا کی فکر میں پڑے رہیں اور اپنے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھا کر دنیا کے اہم خطے میں تبدیل نہ ہو سکیں تاکہ وہ قوتیں بدستور فائدہ مند رہیں جو دنیا بھر میں مختلف ہتھکنڈوں سے حکمرانی کرتی آ رہی ہیں۔
ہمارا مشورہ ہے کہ انٹیلی جنس ادار ے روایتی تساہل کی روش ترک کریں اور سیاستدان پیش پا افتادہ مفادات کے لئے تقسیم در تقسیم کی سیاست ترک کرکے ملک و قوم کے وسیع تر مفادمیں یکجان ہوجائیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکمران محض دھرنوں کو مورد تنقید بنانے کے بجائے خطے کے دوسرے ملکوں سے مل کر ایک مربوط پالیسی وضع کریں اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہی کو اپنے اقتدارو اختیار کا نصب العین بنانے سے اجتناب برتیں۔