سانحہ ملتان اور مخدوم کاکہنا ”خیر ہے یار“
ملتان میں پاکستان تحریک انصاف کے جلسہ عام کے اختتام پر بھگدڑ مچنے سے سات افراد جاں بحق اور 40 سے زائد زخمی ہو گئے۔ اس المناک حادثہ نے پوری قوم کو سوگوار کر دیا۔ حادثہ کے زخمیوں کو فوری طور پر نشتر ہسپتال پہنچایا گیا۔ خدا کا شکر ہے کہ بعد میں زخمیوں کی حالت بہتر ہو گئی اور مزید کوئی شخص زندگی کی بازی نہیں ہارا۔ حادثے کے بعد تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان اور وائس چیئر مین شاہ محمود قریشی نے ضلعی انتظامیہ پر اس حادثے کی ذمہ داری عائد کی ہے جبکہ ڈی سی او کا کہنا ہے کہ جلسہ گاہ کے پنڈال کی ذمہ داری تحریری طور پر تحریک انصاف کی انتظامیہ نے اپنے ذمہ لی تھی جبکہ پنڈال کے گرد پولیس کے 22 سو اہلکار حفاظتی ذمہ داری ادا کر رہے تھے۔ حکومت پنجاب نے اس حادثے کے اگلے روز سیکرٹری ماحولیات اقبال محمود چوہان کی زیر قیادت تین رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی ۔کمیٹی کے دیگر 2 ممبران میں ڈی آئی جی علی عامر ملک اور صوبائی وزارت داخلہ کے سپیشل سیکرٹری شعیب اکبر شامل ہیں۔ حکومت نے کمیٹی سے کہا ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کر کے تفصیلی رپورٹ پنجاب حکومت کو پیش کرے تا کہ علم ہو سکے کہ حادثہ کیسے پیش آیا۔رپورٹ پیش کر دی گئی ہے جس کو بعدازاں تحریک انصاف نے حسب معمول ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ حکومت نے اگرچہ انتظامی سطح پر انکوائری کرانے کے لیے کمیٹی بنا دی ہے تاہم پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ اس واقعہ کی جوڈیشنل انکوائری کرائے تا کہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو سکے۔ رحمن ملک نے عمران خان سے بھی کہا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کی سطح پر تحقیقات کرائیں اور اس امر کا جائزہ لیں کہ ان کی پارٹی کے کچھ افراد اس حادثے کے ذمہ دار تو نہیں؟ اس حوالے سے آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے بھی کہا ہے کہ جلسے کے انتظامات بہت خراب تھے۔ مجھے بھی کھمبے کے ذریعے سٹیج پر چڑھنا پڑا۔ عمران خان کو بھی سٹیج پر چڑھنے کے لیے کھمبے کا سہارا لینا پڑا۔ اسی جلسے کے دوران لاتعداد غیر متعلقہ افراد بھی سٹیج پر چڑھے ہوئے تھے۔ میں یہاں یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میڈیا پر واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی تقریر کے دوران ڈی جے بٹ چیختے چلاتے رہے اور کارکنوں کو بے ہوشی کی حالت میں سٹیج کے سامنے سے اٹھا کر پیچھے منظر سے ہٹایا جاتا رہا اور ہمارے انقلابی اور نئے پاکستان کے دھنی لیڈران کے کان پر جوں تک نہ رینگی حد اس وقت ہوئی جب شاہ محمود قریشی نے ڈی جے بٹ کو جھاڑ پلاتے ہوئے کہا کہ ”خیر ہے یار بس کرو“ خدا کی پناہ غریبوں کی متاع لٹ رہی تھی اور شاہ صاحب فرما رہے ہیں ”خیر ہے یار“ ۔
میں یہاں عمران خان کو یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ اس معاملے کی خود بھی اعلیٰ ترین سطح پر انکوائری کرائیں۔ حکومت کو بھی ہائیکورٹ کے جج کے ذریعے اس معاملے کی جوڈیشل انکوائری کرانی چاہیے تا کہ اس حادثے کی حقیقی وجوہات سامنے آ سکیں اور ذمہ داران کا بھی پتہ چل سکے۔ عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سیاسی اجتماعات ہوتے رہتے ہیں۔ حکومت اس واقعہ کی تحقیقات اس لیے بھی کرائے تاکہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آئے اور عوام کی زندگیاں محفوظ بنائی جا سکیں۔ تحریک انصاف کی قیادت بھی آئندہ جلسوں میں شرکاءکی زندگی کے تحفظ کے لیے ایسے انتظامات کرے کہ آئندہ کوئی حادثہ نہ ہو اور سیاسی کارکن بحفاظت جلسہ میں شرکت کے بعد واپس گھروں کو جائیں۔اور کسی کو یہ نہ کہنا پڑے کہ ”خیر ہے یار“