وزیراعظم پاکستان کا جنرل اسمبلی میں خطاب کشمیریوں کا ترجمان
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے 26 ستمبر کو اقوام متحدہ کے 69 ویں اجلاس سے خطاب کیا۔ اس خطاب میں انہوں نے اپنے پاکستانی عوام کی ترجمانی کا حق بہترین طریقے سے ادا کیا۔ انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور ملکی، خطے میں موجود اور بین الاقوامی مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں واضح انداز میں اور بڑے زور سے ان مسائل کا نہ صرف تذکرہ کیا جسے دنیا شاید اب صرف بھولی بسری یادوں سے منسوب کرنے لگی تھی۔ ان مسائل کو اپنے مو¿ثر انداز میں پوری دنیا کے سربراہوں کے سامنے اور پوری دنیا پر آشکارا کرنا یقیناًپاکستان کی ان مسائل پر واضح پالیسیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ اگرچہ ان پالیسیوں پر پہلے بھی کوئی ابہام نہیں تھا لیکن حالیہ پاکستان بھارت تعلقات، وزیراعظم پاکستان کے دورہ بھارت کے تناظر میں ان پالیسیوں کے بارے میں کچھ حلقوں میں ابہام کی گنجائش پیدا ہو گئی تھی۔ وزیراعظم کی اس تقریر کے ذریعے سے واضح پالیسی بیان آنے سے یہ تمام خدشات اور تحفظات یک سر ختم ہو گئے ہیں۔ اس تقریر کو بطور خاص کشمیریوں نے بے حد سراہا ہے اور پورے کشمیر میں آزادی کی تحریک میں نئی جان پڑ گئی ہے۔ ولوے ایک بار پھر جوان ہو گئے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ سرحد کے اس پار پھرنا امیدی کی لہر دوڑ گئی ہے جنہوں نے پاکستان کی طرف سے خوشگوار تعلقات کی خواہشات کو غلط مطالب دینے کی کوششیں شروع کر رکھی تھیں۔ وزیراعظم پاکستان نے اپنی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ اقوام متحدہ نے 6 دہائیوں سے پہلے کشمیر میں استصواب رائے کی قرار داد منظور کی تھی لیکن اس کے بعد اقوام متحدہ اس قرار داد کو شاید فراموش کر چکی ہے لیکن کشمیری آج بھی اس قرار داد پر عمل درآمد کے لیے منتظر ہیں اور عالمی برادری سے مدد کے طلبگار ہیں۔ وزیراعظم نے زور دے کر کہا کہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کا مسئلہ ہے۔ جسے حل کرنا بھی انہی کی ذمہ داری ہے لیکن اس معاملے میں اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی سرد مہری ناقابل فہم ہے۔ اگر وزیراعظم پاکستان کی طرف سے اٹھائے جانے والے اس مسئلہ کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ صرف وہ مسائل حل کرتی ہے جسے عالمی طاقتیں حل کرنا چاہتی ہیں۔ جن مسائل میں عالمی طاقتیں حل نہیں چاہتیں انہیں پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کو بھی اسی حوالے سے پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ امریکہ نے دہشت گردی کے مسئلے کے حل کے لیے اقوام متحدہ سے جو قراردادیں منظور کروائیں۔ ان پر عمل درآمد کے لیے عالمی برادری خاص طور پر امریکہ اور یورپ ایک ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ خطے کے دوسرے ممالک نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا لیکن کشمیر کی قرار دادوں پر عمل نہ ہو سکا۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نے واضح طور پر مو¿قف اختیار کیا کہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی تعداد میں بھی اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔ ایک عرصے سے بھارت سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے لیے کوشاں ہے۔ دنیا کے مقتدر ممالک بھی چاہتے ہیں کہ بھارت کو مستقل رکنیت مل جائے۔ ایک زمانے میں روس نے اس کے لیے بڑی مو¿ثر تحریک بھی کی تھی لیکن اس وقت چین کی مدد سے پاکستان نے بھارت کے اس مو¿قف اور روس کی تحریک کو ناکام کر دیا تھا۔ اس بار وزیراعظم نے پھر پاکستانی مو¿قف کا اعادہ کیا ہے کہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی تعداد میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بھارت کو اگر مستقل رکنیت مل گئی تو اس سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا۔ بھارت پہلے ہی ایک ایٹمی قوت ہے اور علاقے میں دوسرے ممالک خاص طور پر چھوٹے ممالک کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتا ہے۔ پاکستان کے خلاف بھارت نے ایک خاص محاذ کھڑا کیا ہوا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشمیر سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ سیاچن، سرکریک اور خاص طور پر پانی جیسے حل طلب مسائل ہیں۔ اسی طرح کے مسائل بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی موجود ہیں۔ نیپال، بھوٹان بھی بھارت کے خلاف شکایت کنندہ ہیں اور اپنے مسائل کے حل چاہتے ہیں۔ بھارت اپنی جسامت کے زور پر پہلے ہی ان مسائل کے حل کے لیے چھوٹے ممالک پر اثر انداز ہونے کی کوشش میں ہے۔ بھارت نے خطے میں میزائلوں کی جو دوڑ شروع کر رکھی ہے۔ وہ بھی اس کے مستقبل کے ارادوں کی غماز ہے۔ ان حالات میں اگر بھارت کو اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت مل گئی تو خطے کے حالات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان نے بڑے مو¿ثر طریقے سے دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کی قربانیوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے پاکستان کے اس عزم کو مزید واضح الفاظ میں دہرایا کہ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہے اور اس کے خلاف جارحانہ انداز میں کارروائیاں کر رہا ہے۔ پاک فوج کے دہشت گردی کے خلاف کردار کو بھی خوب اجاگر کیا کہ اگر ”ایک سپاہی شہید ہوتا ہے تو دوسرا بڑے فخر سے اس کی جگہ لے لیتا ہے“۔ وزیراعظم پاکستان نے بھارت کی پالیسیوں پر بھی تنقید کی کہ وہ مذاکرات کی میز پر آنے سے احتراز کرتا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ تمام مسائل کے حل کے لیے مو¿ثر بات چیت کے طریقے کو اپنانے پر زور دیا ہے۔بھارت کی طرف سے حالیہ خارجہ سیکرٹریز سطح کے مذاکرات کو منسوخ کرنے کے عمل پر وزیراعظم نے شدید تنقید کی۔ انہوں نے اس موقع کو تعلقات بہتر کرنے کا ذریعہ بنانے کی بجائے اس موقع کو ضائع کر دیا۔ شاید بھارت خطے میں تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے ابھی تک مناسب کو ششیں کرنے کا حامی نہیں۔ ان تمام معاملات کے باوجود وزیراعظم نے پاکستان کے اس عزم کو بار بار دہرایا کہ پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے اور اس کے لیے اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ کوششیں جاری رکھے گا۔ وزیراعظم نے فلسطین اور دنیا کے دیگر مسائل کو بھی بڑے مو¿ثر انداز میں اٹھایا اور عالمی لیڈروں سے توقع ظاہر کی کہ ایک پر امن دنیا کے قیام کے لیے عالمی برادری اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔ آخری خبریں آنے تک معلوم ہوا ہے کہ بھارت کے وزیراعظم کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔
جہاں وزیراعظم پاکستان نے مو¿ثر طریقے سے ان مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ ان کے حل کے لیے باقاعدہ طریقے سے منظم کوششوں کی بھی ضرورت ہے۔ کشمیری مسلمان عرصہ دراز سے اپنی آزادی کے لیے قربانیاں مسلسل دیے جا رہے ہیں۔ پاکستان اگرچہ ان کی سفارتی اوراخلاقی امداد کر رہا ہے لیکن ان کوششوں کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے موجودہ حالات کے مطابق ایک نئی حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ عالمی سیاست آگے بڑھتے ہوئے اپنے اندر اب بہت سی تبدیلیوں کو سمو چکی ہے۔ ان تبدیلیوں کی روشنی میں کشمیر کی آزادی کے لیے بھی نئی شمعیں روشن کرنے کی ضرورت ہے۔