Tayyab Mumtaz

بارشوں کی تباہ کاریاں اور ہماری ذمہ داریاں

آزاد کشمیر اور پنجاب بھر میں طوفانی بارشوں کے باعث تباہی کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسرے روز مزید 52 افراد چھتیں گرنے ، کرنٹ لگنے اور سیلابی ریلوں میں بہہ جانے سے لقمہ اجل بن گئے جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے۔ دو روز میں ہلاکتیں 200 سے بڑھ گئیں۔ دریاو¿ں میں سیلاب کی وجہ سے سینکڑوں مکانات منہدم ہوگئے۔ راوی،چناب،ستلج اور جہلم میں اونچے درجے کا سیلاب خطر ے کے سرخ نشان کو چھو رہا ہے، کئی شہر اور قصبے بدستور سیلابی ریلوں کی زد میں ہیں ، مظفرآباد کا زمینی رابطہ منقطع ہوچکا ہے ،جمعرات اور جمعہ کو ہونے والی طوفانی بارشوں سے راولپنڈی، جہلم، چکوال، نارووال، منڈی بہاو¿الدین، حافظ آباد میں 2 درجن کے قریب افراد زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ فصلوں اور املاک کو بھی شدید نقصان پہنچا ۔ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب نالہ لئی کے بپھرنے کے باعث ایک بار پھر راولپنڈی بارانی پانی میں ڈوب گیا۔ دریائے سواں میں طغیانی سے کچی آبادیاں بہہ گئیں، ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ اور متعدد مقامات پر پل طوفانی بارش کے ریلوں میں بہہ گئے جس کی وجہ سے شہروں کا آپس میں رابطہ منقطع ہے اور تادم تحریر بجلی کی ترسیل اور مواصلات کا نظام بھی درہم برہم ہے۔
یہ امر حیران کن ہے کہ پنجاب حکومت کے بلند آہنگ دعووں کے باوجودپاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں مون سون کی بارشوں نے شہر کے بڑے حصے کو نذر آب کر دیا۔ انتظامیہ کی نا اہلی اور488 ملی میٹر بارش کے باعث مکینوں کو ناقابل بیاں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پوش اور پسماندہ ہر دو علاقوں میں گندے اور بارانی پانی کی فرمانروائی دکھائی دی۔ سڑکیں سفر کے قابل نہ رہیں اورٹریفک تقریباً جام ہوکر رہ گئی۔سینکڑوں مقامات پر کاریں ، ویگنیں، بسیں اور موٹرسائیکلیں پانی کے ریلوں کی تاب نہ لاتے ہوئے بند ہو گئیں۔راوی، ستلج ، چناب اور جہلم میں اونچے درجے کے سیلاب کی وجہ سے متاثرین کی ایک بڑی تعدادنقل مکانی پر مجبور ہو چکی ہے۔ متاثرہ علاقوں میں پنجاب حکومت نے ایمرجنسی نافذ کر دی ہے جبکہ سول انتظامیہ مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتی ہے۔ کئی علاقوں میں امدادی کاموں کیلئے فوج طلب کر لی گئی ہے۔ یہ امر لائق توجہ ہے کہ موجودہ صورت حال انتظامیہ کی نا اہلی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے اور ایک ہی بارش نے انتظامیہ کی کارکردگی کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ محکمہ موسمیات نے بارشوں کی اور فلڈ وارننگ کمیشن نے سیلاب کی پیشگی اطلاع کر دی تھی مگر پنجاب حکومت مطلوبہ اقدامات بروقت نہیں کرسکی، جس کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کا دوسرا بڑا شہر پانی میں تیرتا ہوا دکھائی دیا۔ 1کروڑ آبادی کے اس شہر کے مختلف علاقے سیلاب زدہ تباہ حال علاقوں کا منظر پیش کر رہے تھے، سڑکیں جھیلوں اور گلیاں ندی نالوں کا روپ دھارگئیں۔ بلدیاتی اداروں کی عدم فعالیت اور حکومتی غفلت نے بارانِ رحمت کو طوفانِ زحمت میں بدل دیا۔ اگر صحت و صفائی اور نکاسی آب کے ذمہ دار اداروں نے حفظ ما تقدم کے تحت اپنے فرائض اور ذمہ داریاں فعالیت اور تندہی سے ادا کی ہوتیں تو شہریوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ کڑوا سچ تو یہ ہے کہ برساتی نالوں کی صفائی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے نالوں کا گندا پانی گھروں اور کاروباری مراکز میں داخل ہو گیا۔ بارش کی تباہ کاریوں نے بے بس و بے کس شہریوں کو باور کروا دیا کہ وہ ایک ایسی مملکت کے باسی ہیں، جہاں ارباب حکومت ٹیکسوں کے نام پر شہریوں کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کیلئے ہمیشہ مستعد، فعال اور متحرک دکھائی دیتے ہیں ، لیکن انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے معاملے میں ہمیشہ سنگدلانہ تغافل اور مجرمانہ غفلت کو اپنا ”معمول کا استحقاق“ جانتے ہیں۔ اس مملکت کے بدقسمت باسیوں کو جب بھی کسی آسمانی یا زمینی افتاد کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو تمام محکموں کے حسن کارکردگی کا کچا چٹھا ان پر آشکار ہو جاتا ہے۔ ایک طرف بارش نے شہریوں کا جینا دوبھر کر رکھا تھا اور دوسری طرف بجلی کے ترسیلی نظام کی روایتی معطلی نے انہیں تصویر بے بسی بننے پر مجبور کر دیا تھا۔مقامِ حیرت ہے کہ بارش کے پانی کی دست برد سے ہسپتالوں سمیت کئی اہم سرکاری عمارتیں بھی نہ بچ سکیں۔شہریوں کو اشیائے خورو نوش کی قلت کا سامنا کرناپڑااور گھروں میں جمع شدہ راشن قابل استعمال نہ رہا۔ شہر کی اہم شاہراہوں پر کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہونے کے باعث آمد و رفت بری طرح متاثر ہوئی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ آزادکشمیر اور صوبہ پنجاب کے سیکڑوں شہری بے گھر ، بے در، بے سایہ اور بے سائبان ہو چکے ہیں انہیں عارضی اورعبوری پناہ گاہ چاہئے تاکہ وہ بارش اور دیگر ارضی وسماوی آفات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے ابھی سے جنگی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو متحرک کیاجائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شدید بارشوں کے طوفانی ریلوں کی تباہ کاریوں سے شہریوں کو بچانے کے لیے وفاق اور صوبائی حکومت کو جملہ وسائل بروئے کار لا کر شہریوں کے نقصانات کا ازالہ کرنا چاہیے۔ پنجاب کے متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان،ادویات اور خیمے روانہ کیے جائیں اور صوبائی حکومتیں ریسکیو کے لیے حسب ضرورت فوجی دستے طلب کریں۔
اندریں حالات معاشرے کے آسودہ اور متمول طبقات کو ایثار کامظاہرہ کرتے ہوئے بارش اور سیلاب کے مثاثرین کی مدد کیلئے میدان عمل میں اترنا چاہیے۔پوش علاقوں کے شہری متاثرہ علاقوں میں پہنچیں اور فراخدلی سے متاثرین کی مدد کریں۔میں یہاں خاص طور پر امریکا میں مقیم پاکستانی کمیونٹی سے خصوصاً درخواست کوں گا کہ اس نازک صورتحال میں ہمیشہ کی طرح ہاتھ بڑھائیں اور مصیبت میںگھرے پاکستانیوں کی مدد کریں۔اس سلسلے میں ”پاکستان نیوز“ کی ٹیم اپنے فرائض کو بھرپور انداز میں نبھانے کو تیار ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button