کھسیانی بلی کھمبا نوچے انقلاب مارچ یا انتشار مارچ
یہ محاورہ حکومت اور عمران خان پر صادر بیٹھتا ہے ۔ایک طرف عمران خان ہیں، دوسری طرف علامہ طاہرالقادری۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ سے تناو¿ حکومت کے لئے مشکل پیدا کر رہا ہے۔ عمران خان کا سارا زور اس پر ہے کہ گزشتہ سال کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی ثالثی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے مطالبات پر غور کیا جائے۔ یعنی ان کو ماضی پر ہی فوکس کیا جائے۔ اور یہ تمام کام اداروں کے ذریعے عدلیہ پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن اور سیاسی طور پر کیا جائے۔ بالفاظ دیگر قانون اور آئین کی حدود میں رہ کر اور بات چیت کے ذریعے کیا جائے۔ اگر معاملہ سیاسی جماعتوں کے دائرے سے باہر چلا گیا توبات ہاتھوں سے نکل جائے گی۔ عمران خان کے پاس جو مطالبات ہیں وہ سب کے سب ماضی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے پاس فوری یا طویل مدت کے لئے کوئی مستقبل کا پلان نہیں۔
مثال کے طور پر وزیراعظم کس طرح سے استعفیٰ دیں؟
کیا ان سے زبردستی استعفیٰ لیا جائے؟
نواز لیگ کی حکومت جانے کے بعد وہ کس طرح سے یقینی بنائیں گے کہ انتخابات مقررہ آئینی مدت میں ہوں گے اور وہ بھی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ؟
نگراں سیٹ اپ کس کے پاس ہوگا؟
انتخابی اصلاحات کون کرے گا اور کتنی مدت میں ہو جائیں گے؟
الیکشن کمیشن اب ایکّ آئینی ادارہ ہے، اس کو کیسے تبدیل کیا جائے گا؟
چند ماہ تک ”زیر عتاب “ رہنے کے بعد جماعت اسلامی ایک بار پھر مین اسٹریم میں آگئی ہے۔اور پیپلز پارٹی کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔اگر پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کی ثالثی کام کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نواز شریف کی حکومت بچ جائے گی۔کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ نواز حکومت پر آخری وار ہوگا؟ کیا ترکش میں اور تیر نہیں؟ مذاکرات اس وقت کامیاب ہوں گے جب نواز شریف کو اختیارات اور پالیسیوں کے حوالے سے بہت کچھ سرینڈر کرنا پڑے گا۔ بلکہ یہ بھی کہ آنے والے وقتوں میں نواز شریف خود اورآنے والی حکومتیں بھی اس طرح کے حملوں کے لئے تیار رہیں۔
عمران خان جتنے اونچے سر میں معاملات کو لے گئے ہیں انہوں نے سب کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ وہ اگر مارچ کے بعد اسلام آباد میں دھرنا دیتے ہیں اور حکومت کر گرانے میں ناکام رہتے ہیں تو وہ عوام میں اپنی ساکھ اور مقبولیت کھو بیٹھیں گے۔ آئندہ وہ کچھ بھی کریں گے، تو عوام ان کا ساتھ نہیں دے گی۔ لوگوں کی طرف سے اتنا بڑا ریسپانس شاید آخری ہو گا۔
جہاں تک آرمی کا سوال ہے، کیا وہ عمران خان کو دھرنا ختم کرنے کے لئے کہے گی یا نواز شریف کو استعفیٰ کے لئے؟ دونوں صورتوں میں آرمی یہ الزام اپنے سر لینا نہیں چاہے گی۔ یہ بھی ایک بڑا سوال ہے کہ آرٹیکل 245 کے نفاذ کے ہوتے ہوئے عمران خان اگر حکومت کو گرا دیتے ہیں تو ریاستی اداروں کی ناکامی یا پھر ان کے گٹھ جوڑ کا معاملہ ہوجائے گا۔
گڈ گورننس نہ ہونا، عوام کو کچھ ڈلیور نہ کرنے کی سینکڑوں شکایات ہو سکتی ہیں ، مگر تاحال نواز حکومت عوام میں غیرمقبول نہیں ہوئی۔ ویسے بھی کسی حکومت کے غیرمقبول ہونے کے لئے ایک سال ناکافی ہے۔ لہٰذا عمران خان ہوں یا علامہ طاہرالقادری، ان کے اقدام گراس روٹ کے نہیں۔ بڑی بات یہ ہے کہ سوائے تحریک انصاف کے تمام سیاسی جماعتیں سسٹم اور جمہوری نظام کو بچانے کے حق میں ہیں۔
اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ نواز حکومت پر اصل دباو¿ کچھ اختیارات اور پالیسیوں سے دستبردار ہونے کے لئے ہے۔اور خاص طور پر مشرف کو ریلیف دینا اولین ترجیح ہے۔جس کے لیے لوگ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔یہاں میاں نوازشریف کو بھی چاہئے کہ ہوش کے ناخن لیں اور بادشاہت کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں اور ایسے مشیروں اور وزیروں کے مشوروں پر عمل نہ کریں جو ان کو تیسری بار جیل کی کال کوٹھری میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔
1977کی طرح افغانستان آج بھی ہمارے سر پر سوار ہے۔ جہاں سے اتحادی فوجیں رواں سال کے آخر میں جائیں گی۔ عالمی طاقتوں کو ایسے جمہوریت اور انسانی حقوق عزیز ہیں لیکن اتنے بھی نہیں جتنے ان کو اپنے مفادات عزیز ہیں۔ لہٰذا وہ ایسے ہنگامی حالات میں سویلین کے بجائے فوجی حکومت کو ترجیح دیں گے، تاکہ مشاورت، فیصلہ سازی اور اس پر عمل درآمد میں سہولت اور آسانی ہو۔
قومی سلامی کانفرنس سیاسی بحران کو ڈی فیوز کرنے میں اہم ثابت ہوئی۔ یہ کانفرنس ظاہر ہے کہ دفاعی اداروں سے مشاورت کے بعد ہی بلائی گئی تھی۔ اس کانفرنس سے نواز شریف کو یہ فائدہ ہوا کہ وہ سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور لگتا ہے کہ ان کی حکومت بچ گئی ہے۔ وہ تمام سیاسی قوتوں کو یہ بتانے میں کامیاب رہے کہ وہ ان کو اعتماد میں لے سکیں اور گواہ رہیں کہ انہوں نے کون کون سے اختیارات اور پالسیوں سے دستبرداری کی ہے۔اسٹیبلشمنٹ اس میں کامیاب ہوئی کہ وہ کوئی انتہائی قدم اٹھانے سے بچ گئی۔ اور اس امتحان سے بھی کہ وہ عمران خان کو دھرنا ختم کرنے کے لئے کہتی یا نواز شریف کو حکومت چھوڑنے کے لئے۔ اس مرتبہ فیصلہ ٹرائیکا کے بجائے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ہوا ہے۔ پاکستان کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار آنے والے وقت میں فوج کے کردار کو کوئی آئینی شکل دینے یا طریقہ کار میں بعض تبدیلیوں کے امکان کو خارج از امکان نہیں قرار دے رہے ہیں
اب لگتا ہے کہ حکمت عملی کچھ اس طرح سے بنائی گئی ہے کہ عمران خان کو فیس سیونگ دی جائے گی۔ اور وہ آرام سے مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد میں دھرنا دیں گے۔ چند گھنٹے بعد سیاسی جماعتوں کا ایک وفد ان سے ملاقات کرے گا۔ یوں ان کے دو مطالبات دس حلقوں میں دوبارہ گنتی اور انتخابی اصلاحات مان لئے جائیں گے۔ ان دونوں کی شکل قانونی اور آئینی ہی رکھی جائے گی۔ دوبارہ گنتی کی الیکشن کمیشن یا الیکشن ٹربیونل میں دائر کی گئی درخواست کی حکومت مخالفت نہیں کرے گی۔ انتخابی اصلاحات کے لئے پارلیمنٹ کی کمیٹی پہلے سے موجود ہے اس کو سرگرم کیا جائے گا۔
ایک معاملہ ابھی تک باقی رہتا ہے۔ جس کا اشارہ مسلم لیگ کے سنیئر رہنما راجا ظفرالحق نے دیا ہے کہ ریٹائرڈ جنرل مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے لئے حکومت پر دباو¿ ہے۔ اسی روز مشرف کی صحافیوں کی بذریعہ فون بات چیت شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ ملک سے بھاگ نہیں رہے ہیں۔ والدہ کی طبیعت کے لئے جارہے ہیں اور واپس آکر مقدمات کا سامنا کریں گے۔
اگر ایسا ہے تو مشرف کو جانے دیا جائے ویسے بھی اب وہ72سالہ شخص اتنا متحرک نہیں ہے اور اس کی ساکھ تباہ ہو چکی ہے۔مگر ہمارے حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ جیسے میاں نوازشریف کے والد کی وفات پر انہیں جنازہ پڑھنے کی اجازت نہ دینا مشرف صاحب اور پرویز الٰہی اور شجاعت کی بہت بڑی غلطی تھی کہیں میاں نوازشریف یہی غلطی دوہرانے تو نہیں جا رہے۔
٭٭٭