Tayyab Mumtaz

پنجاب کا میزانیہ ترقیاتی منصوبوں کا دور

صوبہ پنجاب کا 10 کھرب 44 ارب 90 کروڑ روپے کا بجٹ جمعہ کے روز پیش کر دیا گیا۔ مالی سال 2014-15ءکے لیے پیش کردہ بجٹ کی رقم رواں مالی سال کے بجٹ سے 18.5فیصد زیادہ رکھی گئی ہے۔ یہ اضافہ اس اندازے کی بنیاد پر کیا گیا ہے کہ وفاقی ٹیکسوں سے ملنے والے حصے میں 14.5 فیصد اضافہ کے ساتھ رواں مالی سال میں 804ارب روپے کی رقم حاصل ہو گی، صوبائی ٹیکسوں میں 30 فیصد اضافے کے ساتھ 164ارب 70 کروڑ روپے موصول ہوں گے اور صوبائی نان ٹیکس ریونیو میں 49 فیصد اضافہ ہو گا۔ ریونیو کی آمدنی کے علاوہ صوبے کو توقع ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر کے لیے مختص رقوم کا 27 فیصد حصہ یعنی 37 ارب 70 کروڑ روپے بیرونی ممالک سے حاصل ہوں گے۔ بتایا گیا ہے کہ جاری اخراجات میں 16 فیصد اضافے کے باوجود حکومت یہ توقع رکھتی ہے کہ 333 بلین روپے کی فاضل رقم ترقیاتی کامیوں کے لیے بچ رہے گی جبکہ غیر ملکی قرضوں کی صورت میں 21 ارب 84 کروڑ روپے حاصل ہوں گے اور یوں ترقیاتی کاموں کے لیے کل 345 ارب روپے کی رقم دستیاب ہو گی۔
ان اعداد و شمار کی روشنی میں آئندہ سالانہ بجٹ کو بجا طور پر ایک ترقیاتی بجٹ کہا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت پنجاب کی ایک سال کی کارکردگی کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر کی اعلیٰ استعداد رکھتی ہے۔ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ بالائی سطح پر کرپشن کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا اور بظاہر اعلیٰ سطح پر کرپشن پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ سو امید کی جا سکتی ہے کہ اس بھاری رقم سے جو منصوبے تعمیر کیے جائیں گے وہ معاشی سرگرمیوں میں نمایاں تحریک پیدا کرنے کا ذریعہ ثابت ہوں گے۔ بتایا گیا ہے کہ حکومت 345ارب روپے کی بھاری رقم انفراسٹرکچر کے بڑے بڑے منصوبوں اور معاشرتی ترقی کے منصوبوں کی تعمیر پر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ صوبے میں مالی سال 2017-18ءتک شرح پیداوار میں اضافے کی شرح 4.8فیصد سے بڑھا کر 8 فیصد تک لائی جا سکے۔۔۔ اور ان چار برسوں میں روزگار کے 40 لاکھ نئے مواقع پیدا کیے جا سکیں جبکہ 70 لاکھ شہریوں کو غربت کی لکیر سے اوپر لایا جا سکے۔ اصولی طور پر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کو ایسے ترقیاتی کاموں میں لگانے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ رواں مالی سال میں حکومت کی کارکردگی نمایاں طور پر بہتر رہی ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت مہنگائی اور ملاوٹ کے خلاف کوئی نتیجہ خیز کارروائی عمل میں نہیں لا سکی۔
تمام اشیا خصوصاً اشیائے خورو نوش کی قیمتوں کا تعین یکطرفہ طور پر تاجر اور دکاندار کرتے ہیں، صارفین کی کوئی آواز نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ معاشی سرگرمیوں سے اگر چند لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے تو دوسری طرف اس سے کہیں زیادہ شرح سے ضروریات زندگی میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ ملاوٹ اس پر مستزاد ہے جس کے سدباب کا کوئی مو¿ثر نظام موجود نہیں۔ حکومت کو مہنگائی اور ملاوٹ کی روک تھام کے لیے جامع منصوبہ پر عمل کرنا ہو گا۔ حکومت کو خبردار رہنا چاہیے کہ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ملاوٹ نے عام شہریوں کو سخت بے چینی میں مبتلا کر رکھا ہے۔
ٹیکسوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے جو تدابیر تجویز کی گئی ہیں، ان میں بڑے اور پر تعیش مکانات پر ٹیکس لگانے اور 1300 سی سی سے بڑی کاروں پر سالانہ ٹیکس کی شرح دگنی کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ مزید برآں تجویز کیا گیا ہے کہ 1590 سی سی سے زیادہ قوی انجن رکھنے والی گاڑیوں پر 20 ہزار سے 35 ہزار روپے تک ٹیکس عائد کیا جائے۔ عالیشان مکانات اور گاڑیوں پر ٹیکس لگانے کی تجویز صائب ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کروڑوں روپوں کے وسیع مکانات اور انتہائی مہنگی گاڑیوں کے مالکان سے کوئی انکم ٹیکس بھی وصول کیا جا رہا ہے یا نہیں؟ نادرا کی رپورٹ کے مطابق ہمارے درمیان ایسے 30 لاکھ شہری ہیں جو کروڑوں روپے کے بنگلوں اور گاڑیوں کے مالک ہیں، اور ان کے بچے نہایت مہنگے اداروں میں زیر تعلیم ہیں لیکن سرے سے ان کے نام ٹیکس دہندگان کی فہرست میں شامل ہی نہیں۔ معیشت کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر شہری سے اس کی آمدنی کے تناسب سے پورا پورا ٹیکس وصول کیا جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ کوئی آسان کام نہیں۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے بغیر کوئی پائیدار معاشی ڈھانچہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔ بلاشبہ یہ ایک مشکل کام ہے۔ خاص طور پر ہمارے ملک میں جہاں قانون شکنی اور آئین سے بار بار کی بغاوتوں نے ڈسپلن کی خلاف ورزی کو قومی مزاج کا حصہ بنا دیا ہے۔ بہرحال ٹیکس کلچر کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ حکمران سیاسی جماعتیں اس مقصد کے لیے عوام کو بھی سیاسی طور پر متحرک کریں۔
پنجاب کے سالانہ بجٹ کے اس سرسری جائزے کے ساتھ ہم اس بات کا اعادہ ضروری سمجھتے ہیں کہ معاشی منصوبہ بندی کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، سیاسی استحکام کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ سو تمام سیاسی جماعتوں اور سیاست پر اثر انداز ہونے والے عناصر کو چاہیے کہ وہ قومی نقط نظر سے سوچیں اور ایسا خلفشار پیدا کرنے سے باز رہیں جو عام بے یقینی کا باعث بن سکتا ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button